صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
24. سورة النُّورِ:
باب: سورۃ النور کی تفسیر۔
مِنْ خِلَالِهِ: مِنْ بَيْنِ أَضْعَافِ السَّحَابِ، سَنَا بَرْقِهِ: وَهُوَ الضِّيَاءُ، مُذْعِنِينَ: يُقَالُ لِلْمُسْتَخْذِي مُذْعِنٌ أَشْتَاتًا وَشَتَّى وَشَتَاتٌ وَشَتٌّ وَاحِدٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا: بَيَّنَّاهَا، وَقَالَ غَيْرُهُ: سُمِّيَ الْقُرْآنُ لِجَمَاعَةِ السُّوَرِ، وَسُمِّيَتِ السُّورَةُ لِأَنَّهَا مَقْطُوعَةٌ مِنَ الْأُخْرَى فَلَمَّا قُرِنَ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ سُمِّيَ قُرْآنًا، وَقَالَ سَعْدُ بْنُ عِيَاضٍ الثُّمَالِيُّ: الْمِشْكَاةُ الْكُوَّةُ بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ، وَقَوْلُهُ تَعَالَى: إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ: تَأْلِيفَ بَعْضِهِ إِلَى بَعْضٍ، فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ: فَإِذَا جَمَعْنَاهُ وَأَلَّفْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ أَيْ مَا جُمِعَ فِيهِ فَاعْمَلْ بِمَا أَمَرَكَ وَانْتَهِ عَمَّا نَهَاكَ اللَّهُ، وَيُقَالُ: لَيْسَ لِشِعْرِهِ قُرْآنٌ أَيْ تَأْلِيفٌ وَسُمِّيَ الْفُرْقَانَ لِأَنَّهُ يُفَرِّقُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، وَيُقَالُ لِلْمَرْأَةِ: مَا قَرَأَتْ بِسَلًا قَطُّ أَيْ لَمْ تَجْمَعْ فِي بَطْنِهَا وَلَدًا وَيُقَالُ فِي، فَرَّضْنَاهَا: أَنْزَلْنَا فِيهَا فَرَائِضَ مُخْتَلِفَةً، وَمَنْ قَرَأَ، فَرَضْنَاهَا: يَقُولُ فَرَضْنَا عَلَيْكُمْ وَعَلَى مَنْ بَعْدَكُمْ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا: لَمْ يَدْرُوا لِمَا بِهِمْ مِنَ الصِّغَرِ، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: أُولِي الْإِرْبَةِ مَنْ لَيْسَ لَهُ أَرَبٌ، وَقَالَ طَاوُسٌ: هُوَ الْأَحْمَقُ الَّذِي لَا حَاجَةَ لَهُ فِي النِّسَاءِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَا يُهِمُّهُ إِلَّا بَطْنُهُ، وَلَا يَخَافُ عَلَى النِّسَاءِ.
‏‏‏‏ «من خلاله» کا معنی بادل کے پردوں کے بیچ میں سے۔ «سنا برقه» اس کی بجلی کی روشنی۔ «مذعنين»، «مذعن» کی جمع ہے یعنی عاجزی کرنے والا۔ «أشتاتا» اور «شتى» اور «شتات» اور «شت» ‏‏‏‏ سب کے ایک ہی معنی ہیں (یعنی الگ الگ) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «سورة أنزلناها» کا معنی ہم نے اس کو کھول کر بیان کیا کہ سورتوں کے مجموعہ کی وجہ سے قرآن کا نام پڑا اور سورۃ کو سورۃ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ دوسری سورۃ سے علیحدہ ہوتی ہے پھر جب ایک سورۃ دوسری کے قریب کر دی گئی تو مجموعہ کو قرآن کہنے لگے، (تو یہ «قرن» سے نکلا ہے) اور سعد بن عیاض ثمالی نے کہا (اس کو ابن شاہین نے وصل کیا)۔ «مشكاة» کہتے ہیں طاق کو یہ حبشی زبان کا لفظ ہے۔ اور یہ جو سورۃ قیامت میں فرمایا ہم پر اس کا جمع کرنا اور «قرآن» کرنا ہے تو «قرآن» سے اس کا جوڑنا اور ایک ٹکڑے سے دوسرا ٹکڑا ملانا مراد ہے۔ پھر فرمایا «فإذا قرأناه فاتبع قرآنه» یعنی جب ہم اس کو جوڑ دیں اور مرتب کر دیں تو اس مجموعہ کی پیروی کر یعنی اس میں جس بات کا حکم ہے اس کو بجا لا اور جس کی اللہ نے ممانعت کی ہے اس سے باز رہ اور عرب لوگ کہتے ہیں اس کے شعروں کا قرآن نہیں ہے۔ یعنی کوئی مجموعہ نہیں ہے اور «قرآن» کو «فرقان» بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ حق اور باطل کو جدا کرتا ہے اور عورت کے حق میں کہتے ہیں «ما قرأت بسلا قط» یعنی اس نے اپنے پیٹ میں بچہ کبھی نہیں رکھا اور کہا «فرضناها» تشدید سے تو معنی یہ ہو گا ہم نے اس میں مختلف فرائض نازل کئیے اور جس نے «فرضناها» تخفیف سے پڑھا ہے تو معنی یہ ہو گا ہم نے تم پر اور جو لوگ قیامت تک تمہارے بعد آئیں گے ان پر فرض کیا۔ مجاہد نے کہا «أو الطفل الذين لم يظهروا» سے وہ کم سن بچے مراد ہیں جو کم سنی کی وجہ سے عورتوں کی شرمگاہ یا جماع سے واقف نہیں ہیں اور شعبی نے کہا «غير أولي الإربة» سے وہ مرد مراد ہیں جن کو عورتوں کی احتیاج نہ ہو۔ اور طاؤس نے کہا (اس کو عبدالرزاق نے وصل کیا) وہ احمق مراد ہے جس کو عورتوں کا خیال نہ ہو اور مجاہد نے کہا (اس کو طبری نے وصل کیا) جن کو اپنے پیٹ کی دھن لگی ہو ان سے یہ ڈر نہ ہو کہ عورتوں کو ہاتھ لگائیں گے۔