صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِهِ: {الَّذِينَ يُحْشَرُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ إِلَى جَهَنَّمَ أُولَئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ سَبِيلاً} :
باب: آیت کی تفسیر یعنی ”یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے چہروں کے بل جہنم کی طرف چلائے جائیں گے، یہ لوگ دوزخ میں ٹھکانے کے لحاظ سے بدترین ہوں گے اور یہ راہ چلنے میں بہت ہی بھٹکے ہوئے ہیں“۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَبَاءً مَنْثُورًا: مَا تَسْفِي بِهِ الرِّيحُ، مَدَّ الظِّلَّ: مَا بَيْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ، سَاكِنًا: دَائِمًا، عَلَيْهِ دَلِيلًا: طُلُوعُ الشَّمْسِ، خِلْفَةً: مَنْ فَاتَهُ مِنَ اللَّيْلِ عَمَلٌ أَدْرَكَهُ بِالنَّهَارِ، أَوْ فَاتَهُ بِالنَّهَارِ أَدْرَكَهُ بِاللَّيْلِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا: وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَمَا شَيْءٌ أَقَرَّ لِعَيْنِ الْمُؤْمِنِ مِنْ أَنْ يَرَى حَبِيبَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ثُبُورًا: وَيْلًا، وَقَالَ غَيْرُهُ: السَّعِيرُ مُذَكَّرٌ وَالتَّسَعُّرُ وَالْاضْطِرَامُ التَّوَقُّدُ الشَّدِيدُ، تُمْلَى عَلَيْهِ: تُقْرَأُ عَلَيْهِ مِنْ أَمْلَيْتُ وَأَمْلَلْتُ الرَّسُّ الْمَعْدِنُ جَمْعُهُ رِسَاسٌ، مَا يَعْبَأُ، يُقَالُ: مَا عَبَأْتُ بِهِ شَيْئًا لَا يُعْتَدُّ بِهِ، غَرَامًا: هَلَاكًا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَعَتَوْا: طَغَوْا، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: عَاتِيَةٍ: عَتَتْ عَنِ الْخَزَّانِ.
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «هباء منثورا‏» کے معنی جو چیز ہوا اڑا کر لائے (گرد و غبار وغیرہ)۔ «مد الظل‏» سے وہ وقت مراد ہے جو طلوع صبح سے سورج نکلنے تک ہوتا ہے۔ «ساكنا‏» کا معنی ہمیشہ۔ «عليه دليلا‏» میں «دليل» سے سورج کا نکلنا مراد ہے۔ «خلفة‏» سے یہ مطلب ہے کہ رات کا جو کام نہ ہو سکے وہ دن کو پورا کر سکتا ہے، دن کا جو کام نہ ہو سکے وہ رات کو پورا کر سکتا ہے۔ اور امام حسن بصری نے کہا «قرة اعین» کا مطلب یہ ہے کہ ہماری بیویوں کو اور اولاد کو خدا پرست، اپنا تابعدار بن دے۔ مومن کی آنکھ کی ٹھنڈک اس سے زیادہ کسی بات میں نہیں ہوتی کہ اس کا محبوب اللہ کی عبادت میں مصروف ہو۔ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ثبورا‏» کے معنی ہلاکت خرابی۔ اوروں نے کہا «سعير» کا لفظ مذکر ہے، یہ «تسعر» سے نکلا ہے، «تسعر» اور «اضطرام» آگ کے خوب سلگنے کو کہتے ہیں۔ «تملى عليه‏» اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں یہ «أمليت» اور «أمللت» سے نکلا ہے۔ «الرس»، «كان» کو کہتے ہیں اس کی جمع «رساس» آتی ہے۔ «كان» بمعنی «معدن ما يعبأ‏» عرب لوگ کہتے ہیں «ما عبأت به شيئا» یعنی میں نے اس کی کچھ پروا نہیں کی۔ «غراما‏» کے معنی ہلاکت اور مجاہد نے کہا «عتوا‏» کا معنی شرارت کے ہیں اور سفیان بن عیینہ نے کہا «عاتية‏» کا معنی یہ ہے کہ اس نے خزانہ دار فرشتوں کا کہنا نہ سنا۔
حدیث نمبر: 4760
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، يُحْشَرُ الْكَافِرُ عَلَى وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ:" أَلَيْسَ الَّذِي أَمْشَاهُ عَلَى الرِّجْلَيْنِ فِي الدُّنْيَا قَادِرًا عَلَى أَنْ يُمْشِيَهُ عَلَى وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ قَتَادَةُ: بَلَى، وَعِزَّةِ رَبِّنَا.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن محمد بغدادی نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے پوچھا، اے اللہ کے نبی! کافر کو قیامت کے دن اس کے چہرے کے بل کس طرح چلایا جائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جس نے اسے اس دنیا میں دو پاؤں پر چلایا ہے اس پر قادر ہے کہ قیامت کے دن اس کو اس کے چہرے کے بل چلا دے۔ قتادہ نے کہا یقیناً ہمارے رب کی عزت کی قسم! یونہی ہو گا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4760  
4760. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کافر قیامت کے دن اپنے چہرے کے بل کیسے چلائے جائیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس (اللہ) نے انسان کو دو پاؤں پر چلایا ہے کیا وہ اسے قیامت کے دن منہ کے بل چلانے پر قادر نہیں ہے؟ حضرت قتادہ نے کہا: یقینا ہمارے رب کی عزت کی قسم! (وہ اس پر قادر ہے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4760]
حدیث حاشیہ:
قیامت کے دن ایک منظر یہ بھی ہوگا کہ کفار ومشرکین منہ کے بل چلائے جائیں گے جس سے ان کی انتہائی ذلت وخواری ہوگی۔
اللھم لا تجعلنا منھم آمین!
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4760   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4760  
4760. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کافر قیامت کے دن اپنے چہرے کے بل کیسے چلائے جائیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس (اللہ) نے انسان کو دو پاؤں پر چلایا ہے کیا وہ اسے قیامت کے دن منہ کے بل چلانے پر قادر نہیں ہے؟ حضرت قتادہ نے کہا: یقینا ہمارے رب کی عزت کی قسم! (وہ اس پر قادر ہے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4760]
حدیث حاشیہ:

وہ کافر جو دنیا میں اللہ کے حضور جھکتے نہیں تھے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انھیں ذلیل و خوار کرنے کے لیے اوندھے منہ چلنے پر مجبور کردے گا۔
دنیا میں جس طرح انسان اپنے پاؤں کے ذریعے سے راستے کی اذیت سے بچتا ہے قیامت کے دن وہ منہ کے ذریعے سے بچنے کی کوشش کرے گا۔
(فتح الباري: 465/11)

قرآن کریم میں صراط مستقیم سے ہٹ کر دوسرا راستہ اختیار کرنا اس کے لیے ان الفاظ کو بطور تمثیل بھی بیان کیا گیا ہےجیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
کیا وہ شخص زیادہ ہدایت والا ہے جو اپنے منہ کے بل اوندھا ہو کر چلتا ہے یا وہ جو سیدھا راہ راست پر چلتا ہے۔
(الملك: 22)
منہ کے بل اوندھا چلنے والے کو دائیں بائیں اور آگے پیچھے کچھ نظر نہیں آتا نہ وہ ٹھوکروں ہی سے محفوظ ہوتا ہے کیا ایسا شخص اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے؟ یقیناً نہیں پہنچ سکتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4760