صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
70. بَابُ ذِكْرِ الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ عَلَى الْمِنْبَرِ فِي الْمَسْجِدِ:
باب: مسجد کے منبر پر مسائل خرید و فروخت کا ذکر کرنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 456
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَتَتْهَا بَرِيرَةُ تَسْأَلُهَا فِي كِتَابَتِهَا، فَقَالَتْ: إِنْ شِئْتِ أَعْطَيْتُ أَهْلَكِ وَيَكُونُ الْوَلَاءُ لِي، وَقَالَ أَهْلُهَا: إِنْ شِئْتِ أَعْطَيْتِهَا مَا بَقِيَ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: إِنْ شِئْتِ أَعْتَقْتِهَا وَيَكُونُ الْوَلَاءُ لَنَا، فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَّرَتْهُ ذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ابْتَاعِيهَا فَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَيْسَ لَهُ وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ مَرَّةٍ"، قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَمْرَةَ نَحْوَهُ، وَقَالَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ: عَنْ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، وَرَوَاهُ مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَمْرَةَ، أَنَّ بَرِيرَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ صَعِدَ الْمِنْبَرَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے یحییٰ بن سعید انصاری کے واسطہ سے، انہوں نے عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ نے فرمایا کہ بریرہ رضی اللہ عنہ (لونڈی) ان سے اپنی کتابت کے بارے میں مدد لینے آئیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم چاہو تو میں تمہارے مالکوں کو یہ رقم دے دوں (اور تمہیں آزاد کرا دوں) اور تمہارا ولاء کا تعلق مجھ سے قائم ہو۔ اور بریرہ کے آقاؤں نے کہا (عائشہ رضی اللہ عنہا سے) کہ اگر آپ چاہیں تو جو قیمت باقی رہ گئی ہے وہ دے دیں اور ولاء کا تعلق ہم سے قائم رہے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس امر کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بریرہ کو خرید کر آزاد کرو اور ولاء کا تعلق تو اسی کو حاصل ہو سکتا ہے جو آزاد کرائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے۔ سفیان نے (اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے) ایک مرتبہ یوں کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور فرمایا۔ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو ایسی شرائط کرتے ہیں جن کا تعلق کتاب اللہ سے نہیں ہے۔ جو شخص بھی کوئی ایسی شرط کرے جو کتاب اللہ میں نہ ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی، اگرچہ وہ سو مرتبہ کر لے۔ اس حدیث کی روایت مالک نے یحییٰ کے واسطہ سے کی، وہ عمرہ سے کہ بریرہ اور انہوں نے منبر پر چڑھنے کا ذکر نہیں کیا الخ۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2074  
´آزاد ہو جانے کے بعد لونڈی کو اختیار ہے کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہے یا نہ رہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اختیار دے دیا، (کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہیں یا اس سے جدا ہو جائیں) اور ان کے شوہر آزاد تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2074]
اردو حاشہ:
فائدہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بات درست نہیں کہ اس کا خاوند آزاد تھا۔
غالباً اس لیے ہمارے فاضل محقق نے اسے ضعیف قراردیا ہے جبکہ دوسرے محققین حضرات نے اس ٹکڑے کے علاوہ باقی حصے کو صحیح کہا ہے۔
صحیح یہ ہے کہ وہ غلام تھا جیسے کہ اگلی دو حدیثوں (2075، 2076)
میں آرہا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2074   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1154  
´عورت جو آزاد کر دی جائے اور وہ شوہر والی ہو۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو اختیار دیا، تو انہوں نے خود کو اختیار کیا، (عروہ کہتے ہیں) اگر بریرہ کے شوہر آزاد ہوتے تو آپ بریرہ کو اختیار نہ دیتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1154]
اردو حاشہ:
وضاخت: 1 ؎:
نسائی نے سنن میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ آخری فقرہ حدیث میں مدرج ہے،
یہ عروہ کا قول ہے،
اور ابو داؤد نے بھی اس کی وضاحت کر دی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1154   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2233  
´آزاد یا غلام کے نکاح میں موجود لونڈی کی آزادی کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بریرہ کے قصہ میں روایت ہے کہ اس کا شوہر غلام تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو (آزاد ہونے کے بعد) اختیار دے دیا تو انہوں نے اپنے آپ کو اختیار کیا، اگر وہ آزاد ہوتا تو آپ اسے (بریرہ کو) اختیار نہ دیتے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2233]
فوائد ومسائل:
شیخ البانی ؒ کہتے ہیں کہ حدیث میں آخری جملہ: اگر شوہر آزاد ہوتا۔
۔
۔
۔
مدرج ہے جو کہ عروہ کا قول ہے۔
(صحیح سنن أبي داود للألباني، حدیث:2233) تاہم مسئلے کی نوعیت یہی ہے کہ اگر شوہر آزاد ہو تو پھر لونڈی کو اختیار حاصل نہیں ہوگا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2233   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:456  
456. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، ان کے پاس حضرت بریرہ ؓ آئیں اور بدلِ کتابت کے سلسلے میں ان سے سوال کیا۔ اس پر حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: تم اگر چاہو تو میں تمہارے آقا کو بدلِ کتابت (یک مشت) ادا کر دوں لیکن تمہاری ولا کا حق میرے لیے ہو گا۔ حضرت بریرہ‬ ؓ ک‬ے آقاؤں نے (حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے) کہا: اگر آپ چاہیں تو بقیہ رقم ادا کر کے اسے آزاد کرالیں لیکن حق ولا ہمارا ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ جب تشریف لائے تو حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تم اسے (بریرہ‬ ؓ ک‬و) خرید کر آزاد کر دو، بلاشبہ ولا کا وہی حق دار ہے جو آزاد کرتا ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ معاملات میں ایسی شرطیں رکھتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں، جو شخص بھی کوئی شرط لگائے جو کتاب اللہ میں ذکر شدہ شرائط کے مناسب نہیں ہے تو اس کی کوئی حیثیت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:456]
حدیث حاشیہ:

بریرہ ؓ انصار کے کسی قبیلے کی لونڈی تھی اور حضرت عائشہ ؓ کے ہاں اس کا آنا جانا تھا بلکہ فارغ اوقات میں آپ کی خدمت کای کرتی تھی۔
جیسا کہ واقعہ افک سے معلوم ہوتا ہے۔
حضرت بریرہ ؓ کا 9 اوقیہ چاندی کی ادائیگی پر اپنے مالکوں سے آزادی کا تحریری معاہدہ ہوگیا۔
(صحیح البخاري، المکاتب، حدیث: 2563)
جن میں چار اوقیہ انھوں نے یک مشت ادا کردیے اور باقی پانچ اوقیہ سال میں ایک اوقیہ کے حساب سے پانچ سال میں ادا کرنے تھے۔
(صحیح البخاري، المکاتب، حدیث: 2560)
امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں برسر منبرخرید وفروخت کے مسائل کی تعلیم دی جاسکتی ہے، مسجد میں عقد بیع کا جواز ثابت کرنا قطعاً مقصود نہیں، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم بخاری میں بیان کیا ہے لیکن اس روایت میں رسول اللہ ﷺ نے برسرمنبر جن باتوں کا ذکر کیا ہے، ان میں بیع وشراء کا قطعاً کوئی ذکر نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے برسرمنبر جو ارشادات ہیں وہ بیع وشرا اورعتق وولاء کے قضیے کے بعد بیان ہوئے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے منبر پر اسی گزشتہ معاملے کی طرف اشارہ کرکے مسئلے کی وضاحت فرمائی ہے، لہذا منبرپر اس واقعے کی طرف اشارہ کرنا گویا منبر پر اسے بیان کرنے کے مترادف ہے۔

حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ نے اس کے متعدد طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
دراصل امام بخاری ؒ کے شیخ علی بن عبداللہ المدینی ؒ اس روایت کو اپنے چار شیوخ:
حضرت سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید قطان، عبدالوہاب بن عبدالمجید اورجعفر بن عون سے بیان کرتے ہیں۔
یہ حضرات اپنے شیخ یحییٰ بن سعید انصاری سے بیان کرتے ہیں، نیز اس ضمن میں امام بخاری ؒ نے حضرت امام مالک ؒ کے طریق کا بھی حوالہ دیا ہے جو مرسل ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ کے منبر پر چڑھنے کا بھی ذکر نہیں ہے۔
اسی طریق کو آگے امام بخاری ؒ نے موصولاً بھی بیان کیا ہے۔
(صحيح البخاري، المکاتب، حدیث: 2564)
یحییٰ بن سعید قطان اورعبدالوہاب بن عبدالمجید کی سند بھی امام مالک ؒ طرح مرسل اور ذکر منبر کے بغیر ہے۔
جعفر بن عون کی سند اس لیے بیان کی ہے کہ اس میں یحییٰ بن سعیدانصاری کے عمرہ سے سماع کی تصریح اور عمرہ کے حضرت عائشہ ؓ سے سماع کی بھی وضاحت موجود ہے۔
چونکہ حضرت سفیان بن عیینہ کی متصل روایت میں منبر کا تذکرہ تھا، اس لیے اسے اصل قرار دے کر متن میں لےلیا اور باقی اسناد کا بطور تائید حوالہ دے دیاگیا۔
(فتح الباري: 713/1)
نوٹ:
اس حدیث سے متعلق دیگر مباحث کتاب المکاتب میں بیاں ہوں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 456