صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
4. بَابُ: {إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} :
باب: آیت کی تفسیر ”مگر ہاں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرتا رہے، سو ان کی بدیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تو ہے ہی بڑا بخشش کرنے والا بڑا ہی مہربان ہے“۔
حدیث نمبر: 4766
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ:" أَمَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبْزَى، أَنْ أَسْأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ: وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا سورة النساء آية 93، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: لَمْ يَنْسَخْهَا شَيْءٌ وَعَنْ وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ سورة الفرقان آية 68، قَالَ: نَزَلَتْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں منصور نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے حکم دیا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دو آیتوں کے بارے میں پوچھوں یعنی «ومن يقتل مؤمنا متعمدا‏» اور جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا الخ۔ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت کسی چیز سے بھی منسوخ نہیں ہوئی ہے۔ (اور دوسری آیت جس کے) بارے میں مجھے انہوں نے پوچھنے کا حکم دیا وہ یہ تھی «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر‏» اور جو لوگ کسی معبود کو اللہ کے ساتھ نہیں پکارتے آپ نے اس کے متعلق فرمایا کہ یہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4766  
4766. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے حضرت عبدالرحمٰن بن ابزٰی نے حکم دیا کہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے درج ذیل دو آیات کے متعلق سوال کروں: جو کسی مومن کو قصدا قتل کرتا ہے تو اس کی سزا جہنم ہے۔ میں نے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: یہ آیت کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوئی۔ اور دوسری آیت: اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے۔ کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ آیت تو مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4766]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا خیال یہ تھا کہ ﴿إلا مَن تَابَ و آمنَ﴾ الآیة کا تعلق ان مسلمانوں سے نہیں ہے جو کسی مسلمان کا عمداً ناحق خون کریں یہ آیت صرف کافروں اور مشرکوں کے ایمان لانے سے متعلق ہے۔
یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا خیال تھا مگر جمہور امت نے ایسے قاتل کے بارے میں توبہ واستغفار کی گنجائش بتائی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4766   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4766  
4766. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے حضرت عبدالرحمٰن بن ابزٰی نے حکم دیا کہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے درج ذیل دو آیات کے متعلق سوال کروں: جو کسی مومن کو قصدا قتل کرتا ہے تو اس کی سزا جہنم ہے۔ میں نے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: یہ آیت کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوئی۔ اور دوسری آیت: اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے۔ کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ آیت تو مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4766]
حدیث حاشیہ:

قاتل کی توبہ کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ کبھی تو وہ دونوں آیات کو ایک محل پر محمول کرتے، ایک آیت کو دوسری آیت کے لیے ناسخ بتاتے ہیں اور کبھی وہ دومحلوں پر محمول کرتے ہیں کہ ایک آیت مشرکین کے بارے میں ہے اور دوسری اہل ایمان سے متعلق ہے۔
ان میں اتفاق کی صورت یہ ممکن ہے کہ سورہ فرقان کی آیت میں جو توبہ کا عموم ہے اس سے اس مسلمان کو مخصوص کیا جائے جس نے جان بوجھ کر کسی کو قتل کیا ہے۔
بہت سے اسلاف اس قسم کی تخصیص پر نسخ کا اطلاق کرتے ہیں۔
(فتح الباري: 629/8)

اس سلسلے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشہور قول یہ ہے کہ جب کوئی مومن دوسرے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کی توبہ قبول نہیں لیکن جمہور علماء نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا بلکہ وہ قاتل کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا رکھتے ہیں اور اس کے لیے توبہ کو صحیح کہا ہے۔
اس کی تفصیل پچھلے اوراق میں دیکھی جا سکتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4766