صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
27. سورة النَّمْلِ:
باب: سورۃ النمل کی تفسیر۔
وَالْخَبْءُ مَا خَبَأْتَ، لَا قِبَلَ: لَا طَاقَةَ الصَّرْحُ كُلُّ مِلَاطٍ اتُّخِذَ مِنَ الْقَوَارِيرِ، وَالصَّرْحُ الْقَصْرُ، وَجَمَاعَتُهُ صُرُوحٌ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَلَهَا عَرْشٌ: سَرِيرٌ، كَرِيمٌ: حُسْنُ الصَّنْعَةِ، وَغَلَاءُ الثَّمَنِ يَأْتُونِي، مُسْلِمِينَ: طَائِعِينَ، رَدِفَ: اقْتَرَبَ، جَامِدَةً: قَائِمَةً، أَوْزِعْنِي: اجْعَلْنِي، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: نَكِّرُوا: غَيِّرُوا، وَأُوتِينَا الْعِلْمَ، يَقُولُهُ سُلَيْمَانُ: الصَّرْحُ بِرْكَةُ مَاءٍ ضَرَبَ عَلَيْهَا سُلَيْمَانُ قَوَارِيرَ أَلْبَسَهَا إِيَّاهُ.
‏‏‏‏ «الخبء» پوشیدہ، چھپی چیز۔ «لا قبل‏» طاقت نہیں۔ «الصرح» کے معنی کانچ کا گارا اور «صرح» محل کو بھی کہتے ہیں اس کی جمع «صروح‏.‏» ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ولها عرش‏» کا یہ معنی ہے کہ اس کا تخت نہایت عمدہ، اچھی کاریگری کا ہے، جو بیش قیمت ہے۔ «مسلمين‏» یعنی تابعدار ہو کر۔ «ردف‏» نزدیک آ پہنچا۔ «جامدة‏» اپنی جگہ پر قائم۔ «أوزعني‏» مجھ کو کر دے۔ اور مجاہد نے کہا «نكروا‏» کا معنی اس کا روپ بدل ڈالو۔ «وأوتينا العلم‏» یہ سلیمان علیہ السلام کا مقولہ ہے۔ «صرح» پانی کا ایک حوض تھا سلیمان علیہ السلام نے اسے شیشوں سے ڈھانک دیا تھا دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پانی بھرا ہوا ہے۔