صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
71. بَابُ التَّقَاضِي وَالْمُلاَزَمَةِ فِي الْمَسْجِدِ:
باب: قرض کا تقاضہ اور قرض دار کا مسجد تک پیچھا کرنا۔
حدیث نمبر: 457
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ كَعْبٍ، أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا كَانَ لَهُ عَلَيْهِ فِي الْمَسْجِدِ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا حَتَّى كَشَفَ سِجْفَ حُجْرَتِهِ، فَنَادَى يَا كَعْبُ، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" ضَعْ مِنْ دَيْنِكَ هَذَا وَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَيِ الشَّطْرَ، قَالَ: لَقَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: قُمْ فَاقْضِهِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر عبدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے یونس بن یزید نے زہری کے واسطہ سے، انہوں نے عبداللہ بن کعب بن مالک سے، انہوں نے اپنے باپ کعب بن مالک سے کہ انھوں نے مسجد نبوی میں عبداللہ ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور دونوں کی گفتگو بلند آوازوں سے ہونے لگی۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے حجرے سے سن لیا۔ آپ پردہ ہٹا کر باہر تشریف لائے اور پکارا۔ کعب، کعب (رضی اللہ عنہ) بولے، جی یا رسول اللہ! (حکم) فرمائیے کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے قرض میں سے اتنا کم کر دو۔ آپ کا اشارہ تھا کہ آدھا کم کر دیں۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! میں نے (بخوشی) ایسا کر دیا۔ پھر آپ نے ابن ابی حدرد سے فرمایا، اچھا اب اٹھو اور اس کا قرض ادا کرو۔ (جو آدھا معاف کر دیا گیا ہے)۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2429  
´قرض کی وجہ سے قید کرنے اور قرض دار کو پکڑے رہنے کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے مسجد نبوی میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا یہاں تک کہ ان دونوں کی آوازیں اونچی ہو گئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھر میں سے سنا تو آپ گھر سے نکل کر ان کے پاس آئے، اور کعب رضی اللہ عنہ کو آواز دی، تو وہ بولے: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے قرض میں سے اتنا چھوڑ دو، اور اپنے ہاتھ سے آدھے کا اشارہ کیا، تو وہ بولے: میں نے چھوڑ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اٹھو، جاؤ ان ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2429]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قرض خواہ مقروض سےقرض کی واپسی کا تقاضا کرسکتا ہے۔

(2)
دوآدمیوں میں کسی بات پرجھگڑا ہو جائے تو صلح کرا دیں چاہیے خاص طورپروہ شخص جس کوجھگڑنے والوں پر کسی قسم کی فضیلت حاصل ہو اوراس کی بات مانی جاتی ہو تو اس کےلیے ضروری ہے کہ جھگڑا ختم کرائے۔

(3)
صلح کے لیے صاحب حق اپنا کچھ حق چھوڑ دے تو بہت ثواب کی بات ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2429   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3595  
´صلح کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ابن ابی حدرد سے اپنے اس قرض کا جو ان کے ذمہ تھا مسجد کے اندر تقاضا کیا تو ان دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا آپ اپنے گھر میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کی طرف نکلے یہاں تک کہ اپنے کمرے کا پردہ اٹھا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو پکارا اور کہا: اے کعب! تو انہوں نے کہا: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! پھر آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ آدھا قرضہ معاف کر دو، کعب نے کہا: میں نے معاف کر دیا اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3595]
فوائد ومسائل:
فائدہ: قاضی اور حاکم کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ عوام کے تنازعات میں ان کی صلح کرا دے۔
اور مالی حقوق میں صاحب حق خوشی سے اگر اپنا حق چھوڑدے تو جائز ہے، صلح میں جبر نہیں ہے۔
 
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3595   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:457  
457. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے مسجد میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ اس پر ان دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے حجرے میں سنا۔ آپ باہر تشریف لائے اور حجرے کا پردہ اٹھا کر آواز دی: اے کعب! انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: تم اپنے قرض میں سے کچھ کم کر دو۔ اور آپ نے نصف قرض چھوڑ دینے کا اشارہ فرمایا۔ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا حکم سر آنکھوں پر، تب آپ نے ابن ابی حدرد ؓ سے فرمایا: اٹھو، اس کا قرض ادا کر دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:457]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے دو جز ہیں:
۔
قرض کاتقاضاکرنا۔
اس کے پیچھے پڑنا۔
اس روایت میں تقاضا کرنے کا ذکر ہے، پیچھا کرنے اور گھیراؤ کرنے کا ذکر نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ تقاضا اس وقت ہوتاہے جب قرض دار کا گھیراؤ کرلیا جائے۔
پھر روایت کے عنوان سے گھیراؤ کرنے کا ثبوت خودبخود ہورہا ہے کہ حضرت کعب بن مالک ؓ نےحضرت ابن ابی حدرد سے جو گفتگو کی یہ اس انداز سے ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے حجرے سے باہر آکر معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلہ کرنا پڑا۔
اس سے صرف تقاضا ہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے پڑنا اور اس کاگھیراؤ کرنا بھی ثابت ہورہا ہے۔
پھر امام بخاری ؒ نے اس روایت کے ایک طریق میں اس کی وضاحت فرمائی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت کعب بن مالک کا حضرت عبداللہ بن ابی حدرد کے ذمے کچھ قرض تھا، وہ ان سے ایک دن ملے اور ان کا گھیراؤ کرلیا۔
(صحیح البخاري، الخصومات، حدیث: 2424)
اس روایت سے پیچھا کرنا بھی ثابت ہوگیا۔
امام بخاری ؒ کی خوبیوں سے ہے کہ حدیث کے تمام طرق میں ان کا ذہن گھومتا رہتا ہے۔
فن حدیث میں کامل ہونے کی یہی علامت ہے، کیونہ جب تک حدیث کے تمام متون اور طرق پر نظر نہ ہو، کوئی مسئلہ پوری طرح واضح نہیں ہوسکتا۔

حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی کے حوالے سےلکھا ہے کہ عبداللہ بن ابی حدرد ؓ کے ذمے دواوقیے چاندی تھی۔
ایک اوقیہ چاندی معاف ہونے کے بعد باقی اوقیہ کی فوری ادائیگی کو ضروری قراردیا گیا، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ کسی ضرورت کے پیش نظر مسجد میں باآواز بلند گفتگو کرناجائز ہے۔
البتہ بلاوجہ مسجد میں آواز بلند کرنا درست نہیں، جیساکہ امام بخاری ؒ خود اس کی وضاحت فرمائیں گے۔
(فتح الباري: 714/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 457