صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {لاَ تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ} لِدِينِ اللَّهِ:
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ کی بنائی ہوئی فطرت «خلق الله» میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں“۔
{خَلْقُ الأَوَّلِينَ} دِينُ الأَوَّلِينَ. وَالْفِطْرَةُ الإِسْلاَمُ.
‏‏‏‏ «خلق الله» سے اللہ کا دین مراد ہے۔ آیت «ان هذا الا خلق الاولین» میں «خلق» سے دین مراد ہے اور «فطرت» سے اسلام مراد ہے۔
حدیث نمبر: 4775
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ، ثُمَّ يَقُولُ: فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ سورة الروم آية 30 ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس بن یزید نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسی جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے کیا تم نے انہیں ناک کان کٹا ہوا کوئی بچہ دیکھا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله ذلك الدين القيم‏» اللہ کی اس فطرت کی اتباع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں، یہی سیدھا دین ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 22  
´اسلام دین فطرت ہے`
«. . . 338- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كل مولود يولد على الفطرة، فأبواه يهودانه وينصرانه كما تناتج الإبل من بهمية جمعاء، هل تحس من جدعاء؟ فقالوا: يا رسول الله، أفرأيت من يموت وهو صغير؟، قال: الله أعلم بما كانوا عاملين . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی (وغیرہ) بنا دیتے ہیں جیسا کہ اونٹوں سے صحیح سالم بچے پیدا ہوتے ہیں، کیا تم ان میں سے کوئی کان کٹا یا ناک کٹا دیکھتے ہو؟ تو لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر کوئی بچہ بچپن میں ہی مر جائے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ جانتا ہے کہ وہ (بچے) کیا عمل کرنے والے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 22]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه ابوداود 4714، من حديث ما لك به ورواه مسلم فواد 2659، من حديث ابي الزناد به مختصراً]
تفقه:
➊ دنیا کے عام انسان دین فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں میں شرک و کفر کا شائبہ تک نہیں ہوتا لیکن ان کے والدین، رشتہ دار، دوست اور دوسرے لوگ انھیں کافر ومشرک بنا دیتے ہیں۔ اس کی تائید اس حدیث قدسی سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ الله تعالی نے فرمایا: میں نے اپنے تمام بندوں کو مؤحد (مسلم) پیدا کیا ہے اور شیطانوں نے آ کر انھیں دین سے بھٹکا دیا ہے۔ [صحيح مسلم: 2865]
➋ اسلام دین فطرت ہے۔
➌ دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ کافروں کے مرنے والے نابالغ بچوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ دیکھئے میری کتاب: [اضواء المصابيح فى تحقيق مشكٰوة المصابيح ح 93]
➍ بعض لوگ صحیح احادیث اور صفات باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں۔ یہ معتزلہ، خوارج، معطلہ، جہمیہ، روافض اور منکرین حدیث وغیرہ کہلاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے نظریات قرآن و حدیث اور سلف صائین سے نہیں لئے بلکہ اہل باطل أخلاف سے لئے ہیں یا خود گھڑ لئے ہیں۔
➎ تقدیر برحق ہے۔
➏ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسے جانور پیدا ہوتے رہتے ہیں جن میں سے بعض کے اعضاء کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عام طور پر جانور صحیح و سالم پیدا ہوتے ہیں لیکن انسان اُن کے کان کاٹ کر کن کٹا بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح عام طور پر انسان دین اسلام پر پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کے والدین انھیں کافر و مشرک بنادیتے ہیں۔ یعنی ایسا کبھی نہیں ہوتا کے الفاظ حدیث میں نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات حقیقت پرمبنی ہے اور یہی حق ہے اگرچہ منکرین حدیث اس کا کتنا ہی انکار کرتے پھریں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 338   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 90  
´بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ كَانَ يحدث قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ثُمَّ يَقُول أَبُو هُرَيْرَة رَضِي الله عَنهُ (فطْرَة الله الَّتِي فطر النَّاس عَلَيْهَا) ‏‏‏‏الْآيَة» ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ فطرت یعنی دین اسلام ہی پر پیدا ہوتا ہے۔ (پیدائش کے وقت وہ کافر، مشرک، یہودی، عیسائی، مجوسی نہیں ہوتا) مگر بعد میں اس کے ماں باپ یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں، (یعنی اپنے رنگ میں اس بچے کو بھی رنگ دیتے ہیں) جس طرح جانور جانور کو صحیح سالم بغیر کسی عیب کے جنتا ہے کیا تم اس میں کوئی نقص پاتے ہو۔ (یعنی کوئی نک کٹا، کن کٹا وغیرہ نہیں ہے بعد میں لوگ اس کے ناک کان وغیرہ کاٹ کر اسے عیب دار بنا دیتے ہیں۔) پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی «فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ» اللہ کی فطرت یہی ہے جس پر لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی پیدا کی ہوئی چیز میں کوئی تبدیلی نہیں ہے اور یہی سیدھا دین ہے۔ اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 90]

تخریج:
[صحيح بخاري 1358]،
[صحيح مسلم 6755]

فقہ الحدیث:
➊ دنیا کے عام انسان دین فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں میں شرک و کفر کا شائبہ تک نہیں ہوتا، لیکن ان کے والدین، رشتہ دار، دوست اور دوسرے لوگ انہیں کافر و مشرک بنا دیتے ہیں۔ اس کی تائید اس حدیث قدسی سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے اپنے تمام بندوں کو موحد (مسلم) پیدا کیا ہے اور شیطانوں نے آ کر انہیں دین سے بھٹکا دیا ہے۔ [صحيح مسلم: 2865]
➋ اسلام دین فطرت ہے۔
➌ دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ کافروں کے مرنے والے نابالغ بچوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ دیکھئے: [اضواء المصابيح ح93]
➍ بعض لوگ صحیح احادیث اور صفات باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں۔ یہ معتزلہ، خوارج، معطلہ، جہمیہ، روافض اور منکرین حدیث وغیرہ کہلاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے نظریات قرآن و حدیث اور سلف صالحین سے نہیں لئے بلکہ اہل باطل اخلاف سے لئے ہیں یا خود گھڑ لئے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 90   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2138  
´ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ۱؎، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی، یا مشرک بناتے ہیں عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! جو اس سے پہلے ہی مر جائے؟ ۲؎ آپ نے فرمایا: اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب القدر/حدیث: 2138]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
فطرت اسلام پر پیدا ہونے کی علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ چونکہ ﴿أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ کا عہد جس وقت اللہ رب العالمین اپنی مخلوق سے لے رہا تھا تو اس وقت سب نے اس عہد اور اس کی وحدانیت کا اقرار کیا تھا،
اس لیے ہر بچہ اپنے اسی اقرار پر پیدا ہوتا ہے،
یہ اور بات ہے کہ بعد میں وہ ماں باپ کی تربیت یا لوگوں کے بہکاوے میں آ کر یہودی،
نصرانی اور مشرک بن جاتا ہے۔
2؎:
یعنی بچپن ہی میں جس کا انتقال ہو جائے،
اس کے بارے میں آپﷺ کا کیا خیال ہے؟۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2138   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4714  
´کفار اور مشرکین کی اولاد کے انجام کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا ڈالتے ہیں، جیسے اونٹ صحیح و سالم جانور سے پیدا ہوتا ہے تو کیا تمہیں اس میں کوئی کنکٹا نظر آتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے جو بچپنے میں مر جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4714]
فوائد ومسائل:
بچہ بنیادی طور ہر دین فطرت یعنی اگر و ہ والدین، اساتذہ اور ماحول سے متاثر نہ ہو تو دین حق ہی پر پروان چڑھے، مگر برے ماحول اور غلط تربیت کے زیر اثر وہ دین حق سے دور ہو جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4714   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4775  
4775. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے۔ کیا تم نے کبھی پیدائشی طور پر ناک یا کان کٹا ہوا کوئی بچہ دیکھا ہے؟ اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿فِطْرَتَ ٱللَّـهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ ٱللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ﴾ یعنی اللہ تعالٰی کی اس فطرت کا اتباع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ یہی سیدھا دین ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4775]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔
اگر اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے تو وہ بڑا ہوکر اسلام پر کار بند ہوگا لیکن انسان کی اس فطرت اصلی پر والدین یا ماحول کا گہرا ثر ہوتا ہے اور غلط ماحول میں وہ فطرت اصلیہ دب جاتی ہے۔
اس دبی ہوئی فطرت سے ماحول کے دباؤ کا اثر ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام بھیجتا اور آسمان سے کتابیں نازل کرتا ہے۔

بہرحال ہر انسان کی فطرت میں قبول حق کی قوت رکھ دی گئی ہے اور اسی لیے اسے حق قبول کرنے کا پابند ٹھہرایا گیا، مثلاً:
اگر فرعون اور ابوجہل میں قبول حق کی یہ صلاحیت نہ ہوتی تو انھیں حق کی طرف دعوت دینا ہی فضول ہوتا، اس لیے انسان کو ایسے اسباب ووسائل سے پرہیز کرنا چاہیے جو اس کی قبول حق کی استعداد ختم یا کمزور کردے اور وہ اسباب اکثر غلط ماحول اور بری صحبت ہیں، اسی طرح اہل باطل کی کتابیں پڑھنا جبکہ خود اپنے مذہب اسلام کا پورا عالم نہ ہو۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4775