صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
5. بَابُ قَوْلِهِ: {وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی کی بیویو! اگر تم اللہ کو، اس کے رسول کو اور عالم آخرت کو چاہتی ہو تو اللہ نے تم میں سے نیک عمل کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا ثواب تیار رکھا ہے“۔
وَقَالَ قَتَادَةُ: وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ: الْقُرْآنِ وَالْحِكْمَةُ السُّنَّةُ.
‏‏‏‏ قتادہ نے کہا کہ آیت «واذكرن ما يتلى في بيوتكن من آيات الله والحكمة» اور تم آیات اللہ اور اس حکمت کو یاد رکھو جو تمہارے گھروں میں پڑھ کر سنائے جاتے رہتے ہیں۔ (آیات اللہ سے مراد) قرآن مجید اور (حکمت سے مراد) سنت نبوی ہے۔
حدیث نمبر: 4786
وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي، فَقَالَ:" إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ"، قَالَتْ: وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَتْ: ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ، قَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا إِلَى أَجْرًا عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 28 - 29، قَالَتْ: فَقُلْتُ: فَفِي أَيِّ هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَتْ: ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ. تَابَعَهُ مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُو سُفْيَانَ الْمَعْمَرِيُّ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ
اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ اپنی ازواج کو اختیار دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم سے ایک معاملہ کے متعلق کہنے آیا ہوں، ضروری نہیں کہ تم جلدی کرو، اپنے والدین سے بھی مشورہ لے سکتی ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو معلوم ہی تھا کہ میرے والدین آپ سے جدائی کا کبھی مشورہ نہیں دے سکتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (وہ آیت جس میں یہ حکم تھا) پڑھی کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها‏» اے نبی! اپنی بیویوں سے فرما دیجئیے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی زینت کو چاہتی ہو سے «أجرا عظيما‏» تک۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا لیکن اپنے والدین سے مشورہ کی کس بات کے لیے ضرورت ہے، ظاہر ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول اور عالم آخرت کو چاہتی ہوں۔ بیان کیا کہ پھر دوسری ازواج مطہرات نے بھی وہی کہا جو میں کہہ چکی تھی۔ اس کی متابعت موسیٰ بن اعین نے معمر سے کی ہے کہ ان سے زہری نے بیان کیا کہ انہیں ابوسلمہ نے خبر دی اور عبدالرزاق اور ابوسفیان معمری نے معمر سے بیان کیا، ان سے زہری نے، اور ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2053  
´مرد اپنی بیوی کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «وإن كنتن تردن الله ورسوله» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس آ کر فرمایا: عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تم اس میں جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ کر لینا جلد بازی نہ کرنا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! آپ خوب جانتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی بھی آپ کو چھوڑ دینے کے لیے نہیں کہیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر یہ آیت پڑھی: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها» (سورة الأحزاب: 28) اے نبی! اپنی بیویو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2053]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے ان تک اللہ کا یہ پیغام پہنچایا۔

(2)
  اس میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی رسو ل اللہﷺ سے محبت کا بیان ہے۔

(3)
  امہات المومنین کے عظیم ایمان اور آخرت کےاجر و ثواب کی طلب کا ذکر ہے جس کی وجہ سے انہوں نے دنیا کی عیش و عشرت کی بجائے آخرت کے ثواب کے حصول کا فیصلہ فرمالیا۔

(4)
رسول اللہﷺ کی یہ خواہش کہ والدین سے مشورہ کرکے جواب دیں، اس لیے تھی کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کم عمری کی وجہ سے کوئی غلط جذباتی فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔

(5)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین کے ایمان کی پختگی اور ایمانی فراست پر نبیﷺ کا اعتماد۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2053   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4786  
4786. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دے دیں تو (سب سے) پہلے آپ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: میں تم سے ایک معاملے کے متعلق کہنے آیا ہوں، اس معاملےمیں جلد بازی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کر کے جواب دینا۔ اور آپ یہ بات خوب جانتے تھے کہ میرے والدین آپ سے علیحدگی اختیار کرنے کا مشورہ کبھی نہیں دیں گے، چنانچہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیں، اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی زیب و زینت چاہتی ہو۔۔ بہت بڑا اجر ہے۔ میں نے کہا: میں اس معاملے میں اپنے والدین سے کیا مشورہ کروں گی؟ میں تو اللہ، اس کے رسول اور عالم آخرت کی خواہاں ہوں۔ (حضرت عائشہ ؓ) فرماتی ہیں کہ پھر نبی ﷺ کی دوسری بیویوں نے بھی وہی جواب دیا جو میں نے دیا تھا۔ اس کی متابعت موسٰی بن اعین نے معمر سے کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4786]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں اس وقت تو بیویاں تھیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قریش سے تھیں اور باقی چار، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اورحضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،ان کے علاوہ تھیں۔

فتوحات کے نتیجہ میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے سے بہتر ہو گئی تو انصار اور مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے بھی نان و نفقے میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سادگی پسند تھے اس لیے ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے اس مطالبے سے سخت رنجیدہ ہوئے اور آپ نے بیویوں سے ایک ماہ کے لیے علیحدگی اختیار کر لی۔
جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں تشریف لائے اور اجازت چاہی۔
آپ نے انھیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔
سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ آپ کے پاس آپ کی بیویاں غمگین اور خاموش بیٹھی ہیں۔
آپ نے فرمایا میرے گرد بیٹھی خرچ کا مطالبہ کر رہی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔
پھر آپ نے ان سے ایک مہینے کے لیے علیحدگی اختیار کر لی۔
(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3690۔
(1478)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ کے بعد بالا خانے سے نیچے اترے تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی:
آپ نے ایک ماہ کا کہا تھا آج انتیس دن ہوئے ہیں؟ آپ نے انگلیوں کے اشارے سے بتایا کہ مہینہ تیس (30)
دن کا بھی ہوتا اورانتیس (29)
دن کا بھی گویا وہ مہینہ انتیس (29)
دن کا تھا۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 3690۔
(1478)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ مرد اگر بیوی کو اختیار دیتا ہے تو اسے طلاق قرار دیا جائے گا لیکن یہ بات غلط ہے کیونکہ اگر عورت علیحدگی اختیار نہیں کرتی تو کسی صورت میں طلاق نہیں ہو گی جیسا کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے علیحدگی کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا پسند کیا تو اس اختیار کو طلاق شمار نہیں کیا گیا۔
(صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1910)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4786