صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
7. بَابُ قَوْلِهِ: {تُرْجِئُ مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! ان (ازواج مطہرات) میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا ہو ان میں سے کسی کو پھر طلب کر لیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں“۔
حدیث نمبر: 4789
حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَسْتَأْذِنُ فِي يَوْمِ الْمَرْأَةِ مِنَّا بَعْدَ أَنْ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكَ سورة الأحزاب آية 51، فَقُلْتُ لَهَا: مَا كُنْتِ تَقُولِينَ؟، قَالَتْ: كُنْتُ، أَقُولُ لَهُ:" إِنْ كَانَ ذَاكَ إِلَيَّ فَإِنِّي لَا أُرِيدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ أُوثِرَ عَلَيْكَ أَحَدًا". تَابَعَهُ عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ، سَمِعَ عَاصِمًا.
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو عاصم احول نے خبر دی، انہیں معاذہ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی «ترجئ من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك‏» کہ ان میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا تھا ان میں سے کسی کو طلب کر لیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں۔ اگر (ازواج مطہرات) میں سے کسی کی باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس جانا چاہتے تو جن کی باری ہوتی ان سے اجازت لیتے تھے (معاذہ نے بیان کیا کہ) میں نے اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ ایسی صورت میں آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو یہ عرض کر دیتی تھی کہ یا رسول اللہ! اگر یہ اجازت آپ مجھ سے لے رہے ہیں تو میں تو اپنی باری کا کسی دوسرے پر ایثار نہیں کر سکتی۔ اس روایت کی متابعت عباد بن عباد نے کی، انہوں نے عاصم سے سنا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4789  
4789. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ان (بیویوں) میں سے آپ جسے چاہیں دور کر دیں اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھ لیں۔ اور اگر آپ ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلا لیں جنہیں آپ نے الگ کر دیا تو بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں۔ اس آیت کے نازل کے بعد بھی رسول ﷺ اگر ہم میں سے کسی کی باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس جانا چاہتے تو جس کی باری ہوتی اس سے اجازت لیتے تھے۔ (راویہ حدیث حضرت معاذہ کہتی ہیں کہ) میں نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے پوچھا: ایسی صورت میں آپ رسول اللہ ﷺ کو کیا کہتی تھیں؟ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: میں تو آپ سے عرض کر دیتی تھی کہ اللہ کے رسول! اگر یہ اجازت آپ مجھ سے لے رہے ہیں تو میں اپنی باری کا ایثار کسی دوسرے پر نہیں کر سکتی۔ اس حدیث کی متابعت عباد بن عباد نے کی، انہوں نے حضرت عاصم سے یہ حدیث سنی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4789]
حدیث حاشیہ:
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جن عورتوں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہبہ کر دیا تھا ان میں سے کسی کو بھی آپ نے اپنے ساتھ نہیں رکھا اگر چہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اسے مباح قرار دیا تھا لیکن بہر حال یہ آپ کی منشا پر موقوف تھا۔
آنحضرت کو یہ مخصوص اجازت تھی۔
قسطلانی نے کہا گو اللہ پاک نے اس آیت میں آپ کو اجازت دی تھی کہ آپ پر باری کی پابندی بھی ضروری نہیں ہے لیکن آپ نے باری کو قائم رکھا اور کسی بیوی کی باری میں آپ دوسری بیوی کے گھر نہیں رہے۔
عباد بن عباد کی روایت کو ابن مردویہ نے وصل کیا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو طبری نے نقل کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4789   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4789  
4789. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ان (بیویوں) میں سے آپ جسے چاہیں دور کر دیں اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھ لیں۔ اور اگر آپ ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلا لیں جنہیں آپ نے الگ کر دیا تو بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں۔ اس آیت کے نازل کے بعد بھی رسول ﷺ اگر ہم میں سے کسی کی باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس جانا چاہتے تو جس کی باری ہوتی اس سے اجازت لیتے تھے۔ (راویہ حدیث حضرت معاذہ کہتی ہیں کہ) میں نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے پوچھا: ایسی صورت میں آپ رسول اللہ ﷺ کو کیا کہتی تھیں؟ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: میں تو آپ سے عرض کر دیتی تھی کہ اللہ کے رسول! اگر یہ اجازت آپ مجھ سے لے رہے ہیں تو میں اپنی باری کا ایثار کسی دوسرے پر نہیں کر سکتی۔ اس حدیث کی متابعت عباد بن عباد نے کی، انہوں نے حضرت عاصم سے یہ حدیث سنی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4789]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر کی اجازت تھی کہ آپ جس بیوی کے پاس چاہیں قیام کر سکتے ہیں۔
آپ پر باری مقرر کرنا لازم نہیں تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے اس کا اہتمام کیا جب سفر میں جاتے تو قرعہ اندازی کر کے اپنے ہمراہ کسی بیوی کو لے جاتے۔
(صحیح البخاري، الھبة وفضلها و التعریض علیها، حدیث: 2593)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری سنگین ہو گئی تو آپ نے دوسری بیویوں سے میرے گھر رہنے کی اجازت چاہی تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے دلی رضامندی سے آپ کو اجازت دے دی۔
(صحیح البخاري، الھبة وفضلها و التعریض علیها، حدیث: 2588)
آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ کو بیویوں کے درمیان باری مقرر کرنے میں اختیار دیا گیا تھا آپ جس کی باری چاہیں موقوف کر دیں یعنی اس سے مباشرت نہ کریں اور جس سے چاہیں یہ تعلق قائم رکھیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4789