صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
11. بَابُ قَوْلِهِ: {لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے مسلمانو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی تھی“۔
حدیث نمبر: 4799
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ الْحَسَنِ، وَمُحَمَّدٍ، وَخِلَاسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مُوسَى كَانَ رَجُلًا حَيِيًّا، وَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا سورة الأحزاب آية 69".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، ان سے حسن بصری اور محمد بن سیرین اور خلاس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بڑے باحیاء تھے، انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے «يا أيها الذين آمنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها‏» کہ اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو ایذا پہنچائی تھی، سو اللہ نے انہیں بَری ثابت کر دیا اور اللہ کے نزدیک وہ بڑے عزت والے تھے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 278  
´پتھر کا موسیٰ علیہ السلام کے کپڑے لے کر بھاگنا `
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ يَغْتَسِلُونَ عُرَاةً يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، وَكَانَ مُوسَى يَغْتَسِلُ وَحْدَهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا يَمْنَعُ مُوسَى أَنْ يَغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّهُ آدَرُ، فَذَهَبَ مَرَّةً يَغْتَسِلُ فَوَضَعَ ثَوْبَهُ عَلَى حَجَرٍ فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِهِ، فَخَرَجَ مُوسَى فِي إِثْرِهِ، يَقُولُ: ثَوْبِي يَا حَجَرُ، حَتَّى نَظَرَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ إِلَى مُوسَى، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا بِمُوسَى مِنْ بَأْسٍ وَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا"، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاللَّهِ إِنَّهُ لَنَدَبٌ بِالْحَجَرِ سِتَّةٌ أَوْ سَبْعَةٌ ضَرْبًا بِالْحَجَرِ.»
۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل ننگے ہو کر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا لیکن موسیٰ علیہ السلام تنہا پردہ سے غسل فرماتے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بخدا موسیٰ کو ہمارے ساتھ غسل کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہے کہ آپ کے خصیے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے لگے اور آپ نے کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ دیا۔ اتنے میں پتھر کپڑوں کو لے کر بھاگا اور موسیٰ علیہ السلام بھی اس کے پیچھے بڑی تیزی سے دوڑے۔ آپ کہتے جاتے تھے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اس عرصہ میں بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھ لیا اور کہنے لگے کہ بخدا موسیٰ کو کوئی بیماری نہیں اور موسیٰ علیہ السلام نے کپڑا لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بخدا اس پتھر پر چھ یا سات مار کے نشان باقی ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل: 278]

تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں تین مقامات پر ہے۔ [ح 278، 3404، 4799]
امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی اسے روایت کیا ہے:
مسلم النیسابوری [صحيح مسلم ح339 وترقيم دارالسلام: 770 وبعد ح 2371 ترقيم دارالسلام: 6146، 6147]
ترمذي [السنن: 3221 وقال: هذا حديث حسن صحيح إلخ]
النسائي فى التفسير [444، 445]
الطحاوي فى مشكل الآثار [1؍11]
والطبري فى تفسيره [تفسير ابن جرير 22؍37]
یہ روایت درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
مسند ابي عوانه [281/1]
صحيح ابن حبان [الاحسان 94/14 ح 6178، دوسرا نسخه: 6211]
الاوسط لابن المنذر [120/2 ح649]
السنن الكبريٰ للبيهقي [198/1]
معالم التنزيل للبغوي [545/3]
یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے بھی بیان کی ہے:
أحمد بن حنبل [المسند 2؍315، 392، 514، 535]
عبدالرزاق [المصنف: 20531]
همام بن منبہ [الصحيفة: 61]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت درج ذیل جلیل القدر تابعین کی سند سے مروی ہے:
① ہمام بن منبہ [الصحيفة: 61 وصحيح البخاري: 278 وصحيح مسلم: 339]
② محمد بن سیرین [صحيح البخاري: 3404، 4799]
③ خلاس بن عمرو [صحيح البخاري: 3404، 4799]
④ الحسن البصری [صحيح البخاري: 3404، 4799]
⑤ عبداللہ بن شقیق [صحيح مسلم: 339 بعد ح2371 ترقيم دارالسلام: 6147]
اس روایت کی دوسری سندیں، آثارِ صحابہ اور آثارِ تابعین بھی مروی ہیں دیکھئیے:
مصنف ابن ابی شیبہ [11؍533، 535]
وتفسیر الطبری [22؍36، 37]
وكشف الاستار [مسند البزار: 2252]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی یہ روایت بالکل صحیح ہے۔

اس حدیث کی تشریح میں حافظ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«انه ليس فى الحديث انهم رأوا من موسي الذكر - الذى هو عورة - و ان رأوا منه هيئة تبينوا بها أنه مبرأ مما قالوا من الادرة وهذا يتبين لكل ناظر بلا شك، بغير أن يرى شيئًا من الذكر لكن بأن يرى مابين الفخذين خاليًا»
حدیث میں یہ نہیں ہے کہ انہوں (بنی اسرائیل) نے موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر یعنی شرمگاہ دیکھی تھی۔ انہوں نے ایسی حالت دیکھی جس سے واضح ہو گیا کہ موسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے الزمات کہ وہ آدر ہیں (یعنی ان کے خصیے بہت موٹے ہیں) سے بری ہیں۔ ہر دیکھنے والے کو (ایسی حالت میں) بغیر کسی شک کے ذَکر (شرمگاہ) دیکھے بغیر ہی یہ معلوم ہو جاتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ رانوں کے درمیان جگہ خالی ہے۔ [المحليٰ 3؍213 مسئله: 349]
اس تشریح سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر جو جسمانی نقص والے الزامات لگاتے تھے، ان تمام الزامات سے آپ بری تھے۔ دوسرے یہ کہ اس روایت میں یہ بھی نہیں ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بالکل ننگے نہا رہے تھے۔ امام ابن حزم کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے لنگوٹی وغیرہ سے اپنی شرمگاہ کو چھپا رکھا تھا اور باقی جسم ننگا تھا۔
بنی اسرائیل نے آپ کی شرمگاہ کو دیکھا ہی نہیں لہٰذا منکرین حدیث کا اس حدیث کا مذاق اڑانا مردود ہے۔
بعض الناس نے کہا کہ تو تین یا چار نشان کہنے کا کیا مطلب؟
عرض ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ» اور بھیجا اس کو لاکھ آدمیوں پر یا زیادہ۔ [الصّٰفّٰت: 147 ترجمه شاه عبدالقادر ص543]
اس آیت کریمہ کا ترجمہ شاہ ولی اللہ الدہلوی کی تحریر سے پڑھ لیں:
«وفرستاديم اُو را بسوئے صد هزار يا بيشتر ازان باشند» [ص543]
منکرین حدیث اس آیت کریمہ میں لفظ او کی جو تشریح کریں گے وہی تشریح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول «ستة أو سبعة» میں «او» کی ہے۔ «والحمدلله»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 11   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 278  
´جس نے تنہائی میں ننگے ہو کر غسل کیا`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ يَغْتَسِلُونَ عُرَاةً يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، وَكَانَ مُوسَى يَغْتَسِلُ وَحْدَهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا يَمْنَعُ مُوسَى أَنْ يَغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّهُ آدَرُ . . .»
. . . انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل ننگے ہو کر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا لیکن موسیٰ علیہ السلام تنہا پردہ سے غسل فرماتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنِ اغْتَسَلَ عُرْيَانًا وَحْدَهُ فِي الْخَلْوَةِ، وَمَنْ تَسَتَّرَ فَالتَّسَتُّرُ أَفْضَلُ:: 278]

تخريج الحديث:
[194۔ البخاري فى: 5 كتاب الغسل: 20 باب من اغتسل عريانًا وحده فى الخلوة 278، مسلم 339]
لغوی توضیح:
«آدَرُ» بڑے بڑے خصیتین والا۔
«فِيْ اِثْرِهِ» اس کے پیچھے۔
«نَدَبٌ» نشان۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3221  
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام باحیاء، پردہ پوش انسان تھے، ان کے بدن کا کوئی حصہ ان کے شرما جانے کے ڈر سے دیکھا نہ جا سکتا تھا، مگر انہیں تکلیف پہنچائی جس کسی بھی اسرائیلی نے تکلیف پہنچائی، ان لوگوں نے کہا: یہ شخص (اتنی زبردست) ستر پوشی محض اس وجہ سے کر رہا ہے کہ اسے کوئی جلدی بیماری ہے: یا تو اسے برص ہے، یا اس کے خصیے بڑھ گئے ہیں، یا اسے کوئی اور بیماری لاحق ہے۔ اللہ نے چاہا کہ ان پر جو تہمت اور جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان سے انہیں بری کر دے۔ (تو ہوا یوں کہ) موسیٰ علیہ السل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3221]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے ایمان لانے والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے جھوٹے الزامات سے تکلیف پہنچائی،
تو اللہ نے انہیں اس تہمت سے بری قرار دیا،
وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت ومرتبت والا تھاؔ (الأحزاب: 69)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3221   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4799  
4799. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ موسٰی ؑ بڑے باحیا انسان تھے۔ اس کے متعلق اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے حضرت موسٰی ؑ کو ایذا پہنچائی تھی تو اللہ تعالٰی نے ان کو (باعزت) بری کر دیا اس (الزام) سے جو انہوں نے لگایا تھا۔ اور اللہ تعالٰی کے ہاں وہ بڑے معزز تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4799]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
بعض کم عقلوں نے یہ مشہورکر رکھا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام جو اس قدر حیا کرتے ہیں اور ستر چھپاتے ہیں اس کی وجہ یہ کہ ان کے جسم میں عیب ہے۔
اللہ پاک نے ایک دن جبکہ آپ ایک پتھر پر کپڑوں کو رکھ کر غسل فرما رہے تھے اس پتھر کو حکم دیا وہ آپ کے کپڑے لے کر بھاگا اور موسیٰ علیہ السلام اسی کے پیچھے اپنے کپڑوں کے لئے بھاگے یہاں تک کہ ان لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اندرونی جسم دیکھا اوران کو آپ کے بے عیب ہونے کا یقین ہو گیا۔
اسی طرف آیت میں اشارہ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4799   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4799  
4799. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ موسٰی ؑ بڑے باحیا انسان تھے۔ اس کے متعلق اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے حضرت موسٰی ؑ کو ایذا پہنچائی تھی تو اللہ تعالٰی نے ان کو (باعزت) بری کر دیا اس (الزام) سے جو انہوں نے لگایا تھا۔ اور اللہ تعالٰی کے ہاں وہ بڑے معزز تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4799]
حدیث حاشیہ:

ایک دوسری حدیث میں اس واقعے کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
بنی اسرائیل ننگے نہاتے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھا کرتے تھے جبکہ موسیٰ علیہ السلام اکیلے غسل کرتے تھے۔
وہ نہایت ہی باحیا تھے۔
انھوں نے اپنا جسم کبھی لوگوں کے سامنےننگا نہیں کیا تھا۔
بنی اسرائیل کہنے لگے:
شاید موسیٰ علیہ السلام کے جسم پر برص کے داغ ہیں یا کوئی اورعیب ہے جس کی وجہ سے یہ ہر وقت لباس میں ڈھکا چھپا رہتا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہائی میں غسل کرنے لگے اور کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیے پتھر (اللہ کے حکم سے)
کپڑے لے کر بھاگ نکلا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے پیچھے دوڑے حتی کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے۔
انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھا تو ان کے تمام شکوک وشبہات دور ہوگئے۔
موسیٰ علیہ السلام نہایت حسین وجمیل اور ہر قسم کے داغ اور عیب سے پاک تھے یوں اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر پتھر کے ذریعے سے اس الزام کو ختم کردیا جو بنی اسرائیل کی طرف سے ان پر لگایا جاتا تھا۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3404)

بنی اسرائیل کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس طرح تکلیف دینا اس لحاظ سے مزید سنگین جرم بن جاتا ہے کہ آپ ہی کے ذریعے سے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی اور وہ مصر میں بڑی بدترین زندگی گزاررہے تھے، بہرحال اس آیت کا روئے سخن منافقین کی طرف ہے جو مسلمانوں میں ملے جلے رہتے تھے۔
مخلص اہل ایمان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ اپنے محبوب اور محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ یا تکلیف پہنچائیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4799