صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
37. سورة الصَّافَّاتِ:
باب: سورۃ الصافات کی تفسیر۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ: مِنْ كُلِّ مَكَانٍ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ: يُرْمَوْنَ، وَاصِبٌ: دَائِمٌ لَازِبٌ لَازِمٌ، تَأْتُونَنَا عَنِ الْيَمِينِ: يَعْنِي الْحَقَّ الْكُفَّارُ تَقُولُهُ لِلشَّيْطَانِ، غَوْلٌ: وَجَعُ بَطْنٍ، يُنْزَفُونَ: لَا تَذْهَبُ عُقُولُهُمْ، قَرِينٌ: شَيْطَانٌ، يُهْرَعُونَ: كَهَيْئَةِ الْهَرْوَلَةِ، يَزِفُّونَ: النَّسَلَانُ فِي الْمَشْيِ، وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا: قَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ الْمَلَائِكَةُ بَنَاتُ اللَّهِ، وَأُمَّهَاتُهُمْ بَنَاتُ سَرَوَاتِ الْجِنِّ، وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ: سَتُحْضَرُ لِلْحِسَابِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَنَحْنُ الصَّافُّونَ: الْمَلَائِكَةُ، صِرَاطِ الْجَحِيمِ: سَوَاءِ الْجَحِيمِ وَوَسَطِ الْجَحِيمِ، لَشَوْبًا: يُخْلَطُ طَعَامُهُمْ وَيُسَاطُ بِالْحَمِيمِ، مَدْحُورًا: مَطْرُودًا، بَيْضٌ مَكْنُونٌ: اللُّؤْلُؤُ الْمَكْنُونُ، وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ: يُذْكَرُ بِخَيْرٍ، وَيُقَالُ: يَسْتَسْخِرُونَ: يَسْخَرُونَ، بَعْلًا: رَبًّا.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا (سورۃ سبا میں جو ہے) «ويقذفون بالغيب من مكان بعيد‏» اس کا مطلب یہ ہے کہ دور ہی سے غیب کے گولے پھینکتے رہتے ہیں۔ اور «يقذفون من كل جانب‏» کا مطلب یہ ہے کہ شیطانوں پر ہر طرف سے مار پڑتی ہے۔ «ولهم عذاب واصب‏» یعنی ہمیشہ کا عذاب (یا سخت عذاب)۔ «تأتوننا عن اليمين‏» کا مطلب یہ ہے کہ کافر شیطانوں سے کہیں گے تم حق بات کی طرف سے ہمارے پاس آتے تھے۔ «غول‏» کا معنی پیٹ کا درد (یا سر کا درد)۔ «ولا هم ينزفون‏» اور نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔ «قرين‏» شیطان۔ «يهرعون‏» دوڑائے جاتے ہیں۔ «يزفون‏» نزدیک نزدیک پاؤں رکھ کر دوڑ رہے ہیں۔ «وبين الجنة نسبا‏» قریش کے کافر فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور ان کی مائیں سردار جنوں کی بیٹیوں (پریوں) کو قرار دیتے تھے۔ «ولقد علمت الجنة إنهم لمحضرون‏» یعنی جنوں کو معلوم ہے کہ ان کو قیامت کے دن حساب کے لیے حاضر ہونا پڑے گا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لنحن الصافون‏» یہ فرشتوں کا قول ہے۔ «صراط الجحيم‏»، «سواء الجحيم» دونوں کے معنی «وسط الجحيم‏» کے ہیں یعنی جہنم کے بیچوں بیچ۔ «لشوبا‏ من حمیم» یعنی ان کے کھانے میں گرم کھولتے ہوئے پانی کی ملونی کی جائے گی۔ «مدحورا‏» دھتکارا ہوا۔ «بيض مكنون‏» بندھے ہوئے موتی۔ «وتركنا عليه في الآخرين‏» اس کا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں باقی رکھا۔ «يستسخرون‏» ٹھٹھا کرتے ہیں۔ «بعلا‏» کے معنی رب، معبود (یمن والوں کی لغت میں)۔ «اسباب» سے آسمان مراد ہیں۔