صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِهِ: {وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ} :
باب: آیت کی تفسیر میں ”بلاشبہ یونس رسولوں میں سے تھے“۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ: مِنْ كُلِّ مَكَانٍ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ: يُرْمَوْنَ، وَاصِبٌ: دَائِمٌ لَازِبٌ لَازِمٌ، تَأْتُونَنَا عَنِ الْيَمِينِ: يَعْنِي الْحَقَّ الْكُفَّارُ تَقُولُهُ لِلشَّيْطَانِ، غَوْلٌ: وَجَعُ بَطْنٍ، يُنْزَفُونَ: لَا تَذْهَبُ عُقُولُهُمْ، قَرِينٌ: شَيْطَانٌ، يُهْرَعُونَ: كَهَيْئَةِ الْهَرْوَلَةِ، يَزِفُّونَ: النَّسَلَانُ فِي الْمَشْيِ، وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا: قَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ الْمَلَائِكَةُ بَنَاتُ اللَّهِ، وَأُمَّهَاتُهُمْ بَنَاتُ سَرَوَاتِ الْجِنِّ، وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ: سَتُحْضَرُ لِلْحِسَابِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَنَحْنُ الصَّافُّونَ: الْمَلَائِكَةُ، صِرَاطِ الْجَحِيمِ: سَوَاءِ الْجَحِيمِ وَوَسَطِ الْجَحِيمِ، لَشَوْبًا: يُخْلَطُ طَعَامُهُمْ وَيُسَاطُ بِالْحَمِيمِ، مَدْحُورًا: مَطْرُودًا، بَيْضٌ مَكْنُونٌ: اللُّؤْلُؤُ الْمَكْنُونُ، وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ: يُذْكَرُ بِخَيْرٍ، وَيُقَالُ: يَسْتَسْخِرُونَ: يَسْخَرُونَ، بَعْلًا: رَبًّا.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا (سورۃ سبا میں جو ہے) «ويقذفون بالغيب من مكان بعيد‏» اس کا مطلب یہ ہے کہ دور ہی سے غیب کے گولے پھینکتے رہتے ہیں۔ اور «يقذفون من كل جانب‏» کا مطلب یہ ہے کہ شیطانوں پر ہر طرف سے مار پڑتی ہے۔ «ولهم عذاب واصب‏» یعنی ہمیشہ کا عذاب (یا سخت عذاب)۔ «تأتوننا عن اليمين‏» کا مطلب یہ ہے کہ کافر شیطانوں سے کہیں گے تم حق بات کی طرف سے ہمارے پاس آتے تھے۔ «غول‏» کا معنی پیٹ کا درد (یا سر کا درد)۔ «ولا هم ينزفون‏» اور نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔ «قرين‏» شیطان۔ «يهرعون‏» دوڑائے جاتے ہیں۔ «يزفون‏» نزدیک نزدیک پاؤں رکھ کر دوڑ رہے ہیں۔ «وبين الجنة نسبا‏» قریش کے کافر فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور ان کی مائیں سردار جنوں کی بیٹیوں (پریوں) کو قرار دیتے تھے۔ «ولقد علمت الجنة إنهم لمحضرون‏» یعنی جنوں کو معلوم ہے کہ ان کو قیامت کے دن حساب کے لیے حاضر ہونا پڑے گا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لنحن الصافون‏» یہ فرشتوں کا قول ہے۔ «صراط الجحيم‏»، «سواء الجحيم» دونوں کے معنی «وسط الجحيم‏» کے ہیں یعنی جہنم کے بیچوں بیچ۔ «لشوبا‏ من حمیم» یعنی ان کے کھانے میں گرم کھولتے ہوئے پانی کی ملونی کی جائے گی۔ «مدحورا‏» دھتکارا ہوا۔ «بيض مكنون‏» بندھے ہوئے موتی۔ «وتركنا عليه في الآخرين‏» اس کا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں باقی رکھا۔ «يستسخرون‏» ٹھٹھا کرتے ہیں۔ «بعلا‏» کے معنی رب، معبود (یمن والوں کی لغت میں)۔ «اسباب» سے آسمان مراد ہیں۔
حدیث نمبر: 4804
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَكُونَ خَيْرًا مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرے۔