صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِهِ: {هَبْ لِي مُلْكًا لاَ يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ} :
باب: آیت کی تفسیر میں ”اور مجھے ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو، بیشک تو بہت بڑا دینے والا ہے“۔
حدیث نمبر: 4808
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ عِفْرِيتًا مِنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ عَلَيَّ الْبَارِحَةَ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا لِيَقْطَعَ عَلَيَّ الصَّلَاةَ، فَأَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْهُ وَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبِطَهُ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ حَتَّى تُصْبِحُوا وَتَنْظُرُوا إِلَيْهِ كُلُّكُمْ، فَذَكَرْتُ قَوْلَ أَخِي سُلَيْمَانَ: رَبِّ وَهَبْ لِي مُلْكًا لا يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي سورة ص آية 35، قَالَ رَوْحٌ: فَرَدَّهُ خَاسِئًا.
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ اور محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، سے محمد بن زیاد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گزشتہ رات ایک سرکش جِن اچانک میرے پاس آیا، یا اسی طرح کا کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تاکہ میری نماز خراب کرے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے سوچا کہ اسے مسجد کے ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سب لوگ بھی اسے دیکھ سکو۔ پھر مجھ کو اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی «رب هب لي ملكا لا ينبغي لأحد من بعدي» کہ اے میرے رب! مجھے ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو۔ روح نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جِن کو ذلت کے ساتھ بھگا دیا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4808  
4808. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: گزشتہ رات ایک دیوہیکل جن مجھ سے بھڑ پڑا۔ یا اس طرح کا کوئی اور کلمہ ارشاد فرمایا، تا کہ میری نماز خراب کرے، لیکن اللہ تعالٰی نے مجھے اس پر غالب کر دیا۔ میں نے چاہا کہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ اسے باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سب اسے دیکھ سکو لیکن مجھے اپنے بھائی حضرت سلیمان ؑ کی دعا یاد آ گئی کہ اے میرے رب! مجھے ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو۔ روح راوی نے کہا: آپ ﷺ نے اس جن کو ذلیل و رسوا کر کے بھگا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4808]
حدیث حاشیہ:

چونک عہد نبوی میں باضابطہ کوئی جیل خانہ نہیں تھا، اس لیے ملزم، مجرم یا قیدی کو مسجد ہی میں بٹھا دیا جاتا تھا اور وہاں سے کہیں جانے نہیں دیتے تھے۔
سب سے پہلا جیل خانہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ مکرمہ میں مکان خرید کر بنایا تھا۔
اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن ہو یا شیطان، یہ انسان کی طرح خاکی مخلوق تو نہیں کہ اسے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جائے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ جن یا شیطان جب کسی انسان یا حیوان کی شکل میں آتا ہے تو اس مخلوق کے لوازمات اس میں آجاتے ہیں جس کا اس نے روپ دھارا ہو۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عفریت بلی کی شکل میں آیا تھا، لہذا اسے باندھنے میں کوئی اشکال نہیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی یہ ایک فضیلت تھی جو آپ کے بعد نہ کسی نبی کو حاصل ہوئی اور نہ کوئی بادشاہ ہی اس طرح کا ہوا ہے لیکن ان کی یہ عظیم سلطنت عبادت گزاری میں آڑے نہ آسکی۔
شاہی میں فقیرانہ زندگی بسر کرنا بھی اللہ والوں کا کام ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے انھیں مقربین میں شامل کرلیا اور بلند درجات عطا فرمائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4808