صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ قَوْلِهِ: {وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ} :
باب: آیت کی تفسیر میں ”اور نہ میں تکلف کرنے والوں سے ہوں“۔
حدیث نمبر: 4809
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ، يَقُولَ: لِمَا لَا يَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ الدُّخَانِ، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا قُرَيْشًا إِلَى الْإِسْلَامِ، فَأَبْطَئُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ، فَحَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْجُلُودَ حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ دُخَانًا مِنَ الْجُوعِ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ {10} يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ {11} سورة الدخان آية 10-11، قَالَ فَدَعَوْا: رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ {12} أَنَّى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ {13} ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ {14} إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ {15} سورة الدخان آية 12-15، أَفَيُكْشَفُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: فَكُشِفَ، ثُمَّ عَادُوا فِي كُفْرِهِمْ، فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ يَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے کہا: اے لوگو! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اگر علم نہ ہو تو کہے کہ اللہ ہی کو زیادہ علم ہے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہہ دیا تھا «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين‏» کہ آپ کہہ دیجئیے کہ میں تم سے اس قرآن یا تبلیغ وحی پر کوئی اجرت نہیں چاہتا ہوں اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہوں۔ اور میں «دخان» (دھوئیں) کے بارے میں بتاؤں گا (جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے تاخیر کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی «اللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف» اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی سی قحط سالی کے ذریعہ میری مدد کر۔ چنانچہ قحط پڑا اور اتنا زبردست کہ ہر چیز ختم ہو گئی اور لوگ مردار اور چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے۔ بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ حال تھا کہ آسمان کی طرف دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم‏» کہ پس انتظار کرو اس دن کا جب آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا یہ درد ناک عذاب ہے۔ بیان کیا کہ پھر قریش دعا کرنے لگے «ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون * أنى لهم الذكرى وقد جاءهم رسول مبين * ثم تولوا عنه وقالوا معلم مجنون * إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون‏» کہ اے ہمارے رب! اس عذاب کو ہم سے ہٹا لے تو ہم ایمان لائیں گے لیکن وہ نصیحت سننے والے کہاں ہیں ان کے پاس تو رسول صاف معجزات و دلائل کے ساتھ آ چکا اور وہ اس سے منہ موڑ چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اسے تو سکھایا جا رہا ہے، یہ مجنون ہے، بیشک ہم تھوڑے دنوں کے لیے ان سے عذاب ہٹا لیں گے یقیناً تم پھر کفر ہی کی طرف لوٹ جاؤ گے کیا قیامت میں بھی عذاب ہٹایا جائے گا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر یہ عذاب تو ان سے دور کر دیا گیا لیکن جب وہ دوبارہ کفر میں مبتلا ہو گئے تو جنگ بدر میں اللہ نے انہیں پکڑا۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں اسی طرف اشارہ ہے «يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون‏» کہ جس دن ہم سخت پکڑ کریں گے، بلاشبہ ہم بدلہ لینے والے ہیں۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 272  
´لاعلمی کا اعتراف کوئی عیب نہیں`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أعلم فَإِن من الْعلم أَن يَقُول لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ (قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنا من المتكلفين) . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگو! جو شخص کسی بات کو جانتا ہو تو اسے بیان کر دینا چاہئے۔ اور جو نہیں جانتا (اس سے وہ دریافت کیا گیا) تو اسے یہ کہنا چاہئے «الله اعلم» اللہ خوب جانتا ہے۔ یہ بھی ایک قسم کا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا: «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» [بخاري و مسلم] ۔ یعنی آپ فرما دیجئے کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجرت نہیں طلب کرتا اور نہ میں بات بنانے والوں میں سے ہوں۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 272]

تخریج:
[صحيح بخاري 4809]، [صحيح مسلم 7066]

فقہ الحدیث:
➊ جس مسئلے کا علم نہ ہو تو صاف بتا دینا چاہئے کہ مجھے پتا نہیں ہے یا میں نہیں جانتا اور خواہ مخواہ تکلف کر کے اپنا دماغی و اختراعی فتویٰ جاری نہیں کرنا چاہئے۔
➋ کتاب و سنت، اجماع اور آثار سلف صالحین کی پیروی میں ہی نجات ہے۔
◄ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ اور جماعت اہل حدیث کے اعیان و ارکان (1322ھ) میں لاہور شہر میں جمع ہوئے، اس اجلاس میں اس امر پر بحث ہوئی کہ اہل حدیث کے نام سے کون شخص موسوم ہو سکتا ہے؟ طویل بحث و مباحثہ کے بعد یہ قرار دیا گیا کہ اہل حدیث وہ ہے جو اپنا دستور العمل و الاستدلال احادیث صحیحہ اور آثار سلفیہ کو بناوے اور جب اس کے نزدیک ثابت و متحقق ہو جائے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی معارض مساوی یا اس سے قوی نہیں پایا جاتا تو وہ ان احادیث و آثار پر عمل کرنے کو مستعد ہو جاوے اور اس عمل سے اس کو کسی امام یا مجتہد کا قول بلا دلیل مانع نہ ہو۔ [تاريخ اهلِ حديث ج1 ص151، ازقلم ڈاكٹر محمد بهاؤالدين]
◄ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اس معیار کے دوسرے درجہ پر جہاں صحیح حدیث نبوی نہ پائی جاتی ہو، دوسرا معیار سلفیہ آثار صحابہ کبار و تابعین ابرار و محدثین اخیار ہیں، جس مسئلہ اعتقادیہ و عملیہ میں صریح سنت نبوی کا علم نہ ہو، اس مسئلے میں اہل حدیث کا متمسک آثار سلفیہ ہوتے ہیں اور وہی مذہب اہل حدیث کہلاتا ہے۔ [تاريخ اهلحديث ج 1 ص 157]
◄ حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ نے فرمایا:
خلاصہ یہ کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں۔‏‏‏‏ [فتاويٰ اهلحديث ج 1 ص 111]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 272   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3254  
´سورۃ الدخان سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آ کر کہا: ایک قصہ گو (واعظ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا (قیامت کے قریب) زمین سے دھواں نکلے گا، جس سے کافروں کے کان بند ہو جائیں گے، اور مسلمانوں کو زکام ہو جائے گا۔ مسروق کہتے ہیں: یہ سن کر عبداللہ غصہ ہو گئے (پہلے) ٹیک لگائے ہوئے تھے، (سنبھل کر) بیٹھ گئے۔ پھر کہا: تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو تو اسے بتانی چاہیئے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے «اللہ اعلم» اللہ بہتر جانتا ہے کہنا چاہیئے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3254]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کہہ دو میں تم سے اس کام پر کسی اجر کا طالب نہیں ہوں،
اور میں خود سے باتیں بنانے والا بھی نہیں ہوں (ص: 86)

2؎:
جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا یہ (دھواں) لوگوں کو ڈھانپ لے گا،
یہ بڑا تکلیف دہ عذاب ہے (الدخان: 10)

3؎:
اے ہمارے رب! ہم سے عذاب کو ٹال دے ہم ایمان لانے والے ہیں (الدخان: 12)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3254   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4809  
4809. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا: لوگو! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اور جسے علم نہ ہو، اسے الله أعلم کہہ دینا چاہیے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ سے کہہ دیا تھا: آپ کہہ دیں! میں اس تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہی ہوں۔ اب میں تمہیں دھوئیں کے متعلق بتاتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کرنے میں تاخیر کی۔ تب آپ ﷺ نے ان کے خلاف بددعا کی: اے اللہ! تو ان پر یوسف ؑ کے زمانے کے سات سالوں کی طرح سات سالوں کا قحط بھیج کر میری مدد فرما۔ چنانچہ قحط نے ان کو پکڑا اور اتنا زبردست پکڑا کہ ہر چیز کو اس نے ختم کر دیا۔ لوگ مردار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4809]
حدیث حاشیہ:
یہ آخری جملہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آج دنیا کا عذاب جو قحط کی صورت میں ان پر نازل ہوا ہے ان سے دور کر دیا جائے توکیا قیامت میں بھی ایسا ممکن ہے؟ نہیں وہاں تو ان کی بڑی سخت پکڑ ہوگی اور کوئی چیز اللہ کے عذاب سے انہیں نہ بچا سکے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4809   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4809  
4809. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا: لوگو! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اور جسے علم نہ ہو، اسے الله أعلم کہہ دینا چاہیے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ سے کہہ دیا تھا: آپ کہہ دیں! میں اس تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہی ہوں۔ اب میں تمہیں دھوئیں کے متعلق بتاتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کرنے میں تاخیر کی۔ تب آپ ﷺ نے ان کے خلاف بددعا کی: اے اللہ! تو ان پر یوسف ؑ کے زمانے کے سات سالوں کی طرح سات سالوں کا قحط بھیج کر میری مدد فرما۔ چنانچہ قحط نے ان کو پکڑا اور اتنا زبردست پکڑا کہ ہر چیز کو اس نے ختم کر دیا۔ لوگ مردار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4809]
حدیث حاشیہ:

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وضاحت کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ ایک شخص نے قبیلہ کنندہ میں حدیث بیان کرتے ہوئے کہا:
قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جو منافقین کی قوت بصارت وسماعت کو ختم کردے گا لیکن مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہوگا۔
مسروق کہتے ہیں کہ ہم اس کی یہ بات سن کر بہت گھبرائے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے یہ وضاحت فرمائی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4774)

کیا قیامت کا عذاب بھی ان سے دور کیا جائے گا؟ یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے۔
مقصد یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کا عذاب نہیں بلکہ دنیا میں سزا کا بیان ہے۔
قیامت کے عذاب میں تخفیف ممکن نہیں بلکہ وہاں تو ان کی سخت پکڑ ہوگی اور کوئی چیز بھی انھیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتے گی۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصد یہ ہے کہ عام معاملات زندگی میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلف سے منع فرمایا ہے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے فرمایا:
ہمیں تکلفات سے منع کیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب و السنة، حدیث: 7293)
اس سے معلوم ہوا کہ لباس، خوراک، رہائش اور دیگر معاملات زندگی میں تکلف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
اسلام میں سادگی اور بے تکلفی اختیار کرنے کی تلقین وترغیب ہے۔
لیکن آج کل میعار زندگی بلند کرنے کے لیے تکلف اصحاب حیثیت لوگوں کا شعار اور وتیرہ بن چکا ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4809