صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ قَوْلِهِ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور ان لوگوں نے اللہ کی قدر و عظمت نہ پہچانی جیسی کہ اس کی قدر و عظمت پہچاننی چاہئے تھی“۔
حدیث نمبر: 4811
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ حَبْرٌ مِنَ الْأَحْبَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا مُحَمَّدُ، إِنَّا نَجِدُ أَنَّ اللَّهَ يَجْعَلُ السَّمَوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالشَّجَرَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْمَاءَ وَالثَّرَى عَلَى إِصْبَعٍ، وَسَائِرَ الْخَلَائِقِ عَلَى إِصْبَعٍ، فَيَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ تَصْدِيقًا لِقَوْلِ الْحَبْرِ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ سورة الزمر آية 67".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبیدہ سلمانی نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ علماء یہود میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھر فرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «وما قدروا الله حق قدره والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه سبحانه وتعالى عما يشركون‏» اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہئے تھی اور حال یہ کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہو گی قیامت کے دن اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے، وہ ان لوگوں کے شرک سے بالکل پاک اور بلند تر ہے۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7451  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ فاطر میں) یہ فرمان کہ بلاشبہ اللہ آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے وہ اپنی جگہ سے ٹل نہیں سکتے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" جَاءَ حَبْرٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ يَضَعُ السَّمَاءَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْأَرْضَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْجِبَالَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالشَّجَرَ وَالْأَنْهَارَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَسَائِرَ الْخَلْقِ عَلَى إِصْبَعٍ، ثُمَّ يَقُولُ بِيَدِهِ: أَنَا الْمَلِكُ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ سورة الأنعام آية 91 . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ ایک یہودی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمین کو ایک انگلی پر، پہاڑوں کو ایک انگلی پر، درخت اور نہروں کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا۔ پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے اور یہ آیت پڑھی «وما قدروا الله حق قدره» (جو سورۃ الزمر میں ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7451]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7451باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ أَنْ تَزُولاَ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کا بظاہر باب سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت اس باب میں نہیں ہے اور نہ اس جگہ پر موجود ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ «امساك السمٰوٰت» یعنی آسمانوں کا تھامنا سابقہ باب سے ثابت فرمارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا آسمانوں اور زمینوں کو تھامنا دراصل اس کی رحمت کے ساتھ ملحق ہے، سابقہ باب جو اللہ تعالیٰ کی رحمت پر قائم فرمایا ہے ممکن ہے کہ اس باب میں اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہو کیوں کہ سابقہ باب صفۃ الرحمۃ کے ساتھ دلیل رکھتا ہے، اس مناسبت کی توجیہ کا اشارہ قرآن مجید کی آیت کے ذریعے بھی ممکن ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
« ﴿وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ إِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾ » [الحج: 65]
وہی آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر اس کی اجازت کے بغیر گر نہ پڑے، بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر شفقت اور نرمی کرنے والا اور مہربان ہے۔
آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اپنی رحمت سے تھامے ہوئے ہے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ امساک کی تفسیر جو آیت میں ہے حدیث کے ذریعے کر رہے ہوں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 323   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4811  
4811. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: علمائے یہود میں سے ایک عالم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اے محمد! ہم (تورات میں) پاتے ہیں کہ اللہ تعالٰی آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا، اس طرح تمام زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، دریاؤں اور سمندروں کو ایک انگلی پر، گیلی مٹی کو ایک انگلی پر اور دیگر تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھر فرمائے گا: میں ہی بادشاہ ہوں۔ نبی ﷺ یہ سن کر ہنس دیے حتی کہ آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق کے لیے تھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: اور ان لوگوں کو جیسی قدر اللہ تعالٰی کی کرنی چاہئے تھی نہیں کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4811]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے پرورد گار کے لئے انگلیاں ثابت ہوتی ہیں کیونکہ آنحضرت نے اس یہودی کی تصدیق کی اور یہ امر محال ہے کہ آنحضرت باطل کی تصدیق کریں۔
اب بعضے لوگوں کا یہ کہنا تصدیقا له راوی کا گمان ہے جو اس نے اپنے گمان سے کہہ دیا۔
حالانکہ آنحضرت تصدیق کی راہ سے نہیں ہنسے تھے بلکہ اس یہودی کی بات کو غلط جان کر، کیونکہ یہود مشبہہ اور مجسمہ تھے۔
وہ اللہ کے لئے انگلیاں وغیرہ ثابت کرتے تھے، صحیح نہیں ہے کہ اس لئے کہ فضیل بن عیاض نے منصور سے روایت کی اس میں یہ بھی ہے تعجبا منا قاله الحبر وتصدیقا له۔
ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
دوسری صحیح حدیث میں ہے۔
ما من قلب إلا وھو بین أصبعین من أصابع الرحمن اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی صحیح حدیث میں ہے أَتانيَ اللیلةَ ربي في أحسنِ صورة فوضع یدہ بین کتفي حتی وجدت برد أناملهِ بینَ ثدیي۔
انامل انگلیوں کی پوریں۔
غرض انگلیوں کا اثبات پرورد گار کے لئے ایسا ہی ہے جیسے وجہ اور یدین اور قدم اور رجل اور جنب وغیرہ کا اور اہلحدیث کا عقیدہ ان کی نسبت یہ ہے کہ یہ سب اپنے معنی ظاہر ی پر محمول ہیں لیکن ان کی حقیقت اللہ ہی جانتا ہے اور متکلمین ان چیزوں کی تاویل کرتے ہیں قدرت وغیرہ سے۔
میں کہتا ہوں محمد بن صلت راوی نے اس حدیث کی روایت کرتے وقت اپنی چھنگلیاں کی طرف اشارہ کیا پھر پاس والی انگلی کی طرف پھر اس کے پاس والی انگلی کی طرف، یہاں تک کہ انگوٹھے تک پہنچے اور اس سے اہل تاویل کا مذہب رد ہوتا ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4811   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4811  
4811. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: علمائے یہود میں سے ایک عالم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اے محمد! ہم (تورات میں) پاتے ہیں کہ اللہ تعالٰی آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا، اس طرح تمام زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، دریاؤں اور سمندروں کو ایک انگلی پر، گیلی مٹی کو ایک انگلی پر اور دیگر تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھر فرمائے گا: میں ہی بادشاہ ہوں۔ نبی ﷺ یہ سن کر ہنس دیے حتی کہ آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق کے لیے تھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: اور ان لوگوں کو جیسی قدر اللہ تعالٰی کی کرنی چاہئے تھی نہیں کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4811]
حدیث حاشیہ:

محدثین اورسلف کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جن صفات کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے جیسا کہ آیت کریمہ میں ہاتھ اور حدیث میں انگلیوں کا اثبات ہے، ان پر بلاکیف و تشبیہ اور بغیر تاویل وتحریف، ایمان رکھنا ضروری ہے، اس لیے یہاں بیان کردہ حقیقت کو محض غلبہ وقوت میں لینا صحیح نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمسکرا کر اس یہودی عالم کی بیان کردہ حقیقت پر مہر تصدیق ثبت فرمائی، اس لیے اس بیان کو حقیقت پر محمول کرنا چاہیے۔
اس کی مزید تفصیل کتاب التوحید حدیث: 7414،7415۔
کے فوائد میں بیان ہوگی۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4811