صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
40. سورة الْمُؤْمِنُ:
باب: سورۃ المومن۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: مَجَازُهَا مَجَازُ أَوَائِلِ السُّوَرِ. وَيُقَالُ بَلْ هُوَ اسْمٌ لِقَوْلِ شُرَيْحِ بْنِ أَبِي أَوْفَى الْعَبْسِيِّ يُذَكِّرُنِي: حَامِيمَ وَالرُّمْحُ شَاجِرٌ ** فَهَلاَّ تَلاَ حَامِيمَ قَبْلَ التَّقَدُّمِ الطَّوْلُ التَّفَضُّلُ {دَاخِرِينَ} خَاضِعِينَ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {إِلَى النَّجَاةِ} الإِيمَانِ {لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ} يَعْنِي الْوَثَنَ {يُسْجَرُونَ} تُوقَدُ بِهِمِ النَّارُ. {تَمْرَحُونَ} تَبْطَرُونَ. وَكَانَ الْعَلاَءُ بْنُ زِيَادٍ يُذَكِّرُ النَّارَ، فَقَالَ رَجُلٌ لِمَ تُقَنِّطُ النَّاسَ قَالَ وَأَنَا أَقْدِرُ أَنْ أُقَنِّطَ النَّاسَ وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: {يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ} وَيَقُولُ: {وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ} وَلَكِنَّكُمْ تُحِبُّونَ أَنْ تُبَشَّرُوا بِالْجَنَّةِ عَلَى مَسَاوِئِ أَعْمَالِكُمْ، وَإِنَّمَا بَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبَشِّرًا بِالْجَنَّةِ لِمَنْ أَطَاعَهُ، وَمُنْذِرًا بِالنَّارِ مَنْ عَصَاهُ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «حم» کا معنی اللہ کو معلوم ہے جیسے دوسری سورتوں میں جو حروف مقطعات شروع میں آئے ہیں ان کے متعلق حقیقی معانی صرف اللہ ہی کو معلوم ہیں۔ بعضوں نے کہا «حم» قرآن یا سورت کا نام ہے جیسے شریح ابن ابی اوفی عبسی اس شعر میں کہتا ہے جبکہ نیزہ جنگ میں چلنے لگا۔ پڑھتا ہے «حم» پہلے پڑھنا تھا۔ «الطول» کے معنی احسان اور فضل کرنا۔ «داخرين‏» کے معنی ذلیل و خوار ہو کر۔ مجاہد نے کہا «ادعوکم الی النجاة» سے ایمان مراد ہے۔ «ليس له دعوة‏» یعنی بت کسی کی دعا قبول نہیں کر سکتا۔ «يسجرون‏» کے معنی وہ دوزخ کے ایندھن بنیں گے۔ «تمرحون‏» کے معنی تم اتراتے تھے۔ اور علاء بن زیاد مشہور تابعی و مشہور زاہد لوگوں کو دوزخ سے ڈرا رہے تھے، ایک شخص کہنے لگا لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا میں لوگوں کو اللہ کی رحمت سے ناامید کیسے کر سکتا ہوں میری کیا طاقت ہے۔ اللہ پاک تو فرماتا ہے «يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله‏» اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا (گناہ کئے) اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ اس کے ساتھ اللہ یوں بھی فرماتا ہے «وأن المسرفين هم أصحاب النار‏» کہ گنہگار دوزخی ہیں مگر میں سمجھ گیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ برے کام کرتے رہو اور جنت کی خوشخبری تم کو ملتی جائے۔ اللہ نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نیکیوں پر خوشخبری دینے والا اور نافرمانوں کے لیے دوزخ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
حدیث نمبر: 4815
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: أَخْبِرْنِي بِأَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ إِذْ أَقْبَلَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ، فَأَخَذَ بِمَنْكِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوَى ثَوْبَهُ فِي عُنُقِهِ، فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِيدًا، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ، فَأَخَذَ بِمَنْكِبِهِ، وَدَفَعَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن ابراہیم تیمی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، آپ نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ سخت معاملہ مشرکین نے کیا کیا تھا؟ عبداللہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اس نے آپ کا شانہ مبارک پکڑ کر آپ کی گردن میں اپنا کپڑا لپیٹ دیا اور اس کپڑے سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ گھونٹنے لگا۔ اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور انہوں نے اس بدبخت کا مونڈھا پکڑ کر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا کیا اور کہا کہ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کر دینا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کے پاس سے اپنی سچائی کے لیے روشن دلائل بھی ساتھ لایا ہے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4815  
4815. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ سخت معاملہ مشرکین نے کیا کیا تھا؟ حضرت عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ اس دوران میں عقبہ بن ابی معیط آیا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کا شانہ مبارک پکڑ کر آپ کی گردن میں اپنا کپڑا لپیٹ دیا۔ پھر اس کپڑے سے بڑی سختی کے ساتھ آپ کا گلا گھونٹنے لگا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ بھی آ گئے۔ انہوں نے عقبہ کا کندھا پکڑ کر رسول اللہ ﷺ سے ہٹایا اور کہا: کیا تم ایسے آدمی کو قتل کر دینا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے جبکہ وہ تمہارے رب کے پاس سے اپنی سچائی کے لیے روشن دلائل بھی لے کر آیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4815]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی عنوان قائم نہیں کیا، صرف چند مشکل الفاظ کی لغوی تشریح کے بعد یہ حدیث بیان کر دی ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ اس سوہ مبارکہ میں ایک مرد مومن کا ذکر ہے، اس مرد مومن کے نام سے یہ سورت موسوم ہے۔
اس نے فرعون کے دربار میں اپنا ایمان ظاہر نہیں کیا تھا اور وہ خود اس خاندان سے تعلق رکھتا تھا لیکن جب فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا کہ تم مجھے اجازت دو میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کردوں، تو اس مرد مومن نے کہا:
کیا تم اسے صرف اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے:
میرا رب اللہ ہے، حالانکہ وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیلیں لے کر آیا ہے۔

قرآن کریم کے اس واقعے پر غور کرنے سے حدیث کی مناسبت کا بھی پتا چل گیا کہ اس واقعے کی سورہ مومن کے واقعے سے پوری پوری مماثلت ہے۔
واللہ اعلم۔

واضح رہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آل فرعون کے مرد مومن سے افضل ہیں کیونکہ وہ اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھلم کھلا اپنے ایمان کا اظہار کرتے تھے، پھرآل عمران کے مرد مومن نے صرف زبانی بات پر اکتفا کیا جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہاتھ کو زبان کے تابع کیا اور قول و فعل دونوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4815