صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا} :
باب: آیت کی تفسیر ”ہم نے تجھ کو کھلی ہوئی فتح دی ہے“۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: بُورًا هَالِكِينَ، سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ: السَّحْنَةُ، وَقَالَ مَنْصُورٌ: عَنْ مُجَاهِدٍ، التَّوَاضُعُ، شَطْأَهُ: فِرَاخَهُ، فَاسْتَغْلَظَ: غَلُظَ، سُوقِهِ: السَّاقُ حَامِلَةُ الشَّجَرَةِ وَيُقَالُ، دَائِرَةُ السَّوْءِ: كَقَوْلِكَ رَجُلُ السَّوْءِ وَدَائِرَةُ السُّوءِ الْعَذَابُ، تُعَزِّرُوهُ: تَنْصُرُوهُ، شَطْأَهُ: شَطْءُ السُّنْبُلِ تُنْبِتُ الْحَبَّةُ عَشْرًا أَوْ ثَمَانِيًا وَسَبْعًا فَيَقْوَى بَعْضُهُ بِبَعْضٍ فَذَاكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَآزَرَهُ: قَوَّاهُ وَلَوْ كَانَتْ وَاحِدَةً لَمْ تَقُمْ عَلَى سَاقٍ وَهُوَ مَثَلٌ ضَرَبَهُ اللَّهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ خَرَجَ وَحْدَهُ، ثُمَّ قَوَّاهُ بِأَصْحَابِهِ كَمَا قَوَّى الْحَبَّةَ بِمَا يُنْبِتُ مِنْهَا.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «بورا» کے معنی ہلاک ہونے والوں کے ہیں۔ مجاہد نے یہ بھی کہا کہ «سيماهم في وجوههم‏» کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ پر سجدوں کی وجہ سے نرمی اور خوشنمائی ہوتی ہے اور منصور نے مجاہد سے نقل کیا «سيما» سے مراد تواضع اور عاجزی ہے۔ «اخرج شطأه‏» اس نے اپنا خوشہ نکالا۔ «فاستغلظ‏» پس وہ موٹا ہو گیا۔ «سوق» درخت کی نلی جس پر درخت کھڑا رہتا ہے، اس کی جڑ۔ «دائرة السوء‏» جیسے کہتے ہیں «رجل السوء‏.‏» ۔ «دائرة السوء‏» سے مراد عذاب ہے۔ «تعزروه‏» اس کی مدد کریں۔ «شطأه‏» سے بال کا پٹھا مراد۔ ایک دانہ دس یا آٹھ یا سات بالیں اگاتا ہے اور ایک دوسرے سے سہارا ملتا ہے۔ «فآزره‏» سے یہی مراد ہے، یعنی اس کو زور دیا، اگر ایک ہی بالی ہوتی تو وہ ایک نلی پر کھڑی نہ رہ سکتی۔ یہ ایک مثال اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمائی ہے۔ جب آپ کو رسالت ملی آپ بالکل تنہا بےیار و مددگار تھے۔ پھر اللہ پاک نے آپ کے اصحاب سے آپ کو طاقت دی جیسے دانے کو بالیوں سے طاقت ملتی ہے۔
حدیث نمبر: 4833
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسِيرُ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسِيرُ مَعَهُ لَيْلًا، فَسَأَلَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ شَيْءٍ، فَلَمْ يُجِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَلَمْ يُجِبْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَلَمْ يُجِبْهُ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: ثَكِلَتْ أُمُّ عُمَرَ نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كُلَّ ذَلِكَ لَا يُجِيبُكَ، قَالَ عُمَرُ: فَحَرَّكْتُ بَعِيرِي، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ أَمَامَ النَّاسِ وَخَشِيتُ أَنْ يُنْزَلَ فِيَّ قُرْآنٌ، فَمَا نَشِبْتُ أَنْ سَمِعْتُ صَارِخًا يَصْرُخُ بِي، فَقُلْتُ: لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ نَزَلَ فِيَّ قُرْآنٌ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ اللَّيْلَةَ سُورَةٌ لَهِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ، ثُمَّ قَرَأَ: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا سورة الفتح آية 1".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں جا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ رات کا وقت تھا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سوال کیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا، تیسری مرتبہ بھی انہوں نے سوال کیا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، عمر کی ماں اسے روئے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تم نے تین مرتبہ سوال میں اصرار کیا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کسی مرتبہ جواب نہیں دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنے اونٹ کو حرکت دی اور لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن مجید کی کوئی آیت نہ نازل ہو۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک پکارنے والے کی آواز میں نے سنی جو مجھے ہی پکار رہا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے تو خوف تھا ہی کہ میرے بارے میں کوئی آیت نہ نازل ہو جائے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر آج رات ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے اس ساری کائنات سے زیادہ عزیز ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے پھر آپ نے سورۃ الفتح کی تلاوت فرمائی۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 572  
´رات کو سفر کرنا جائز ہے`
«. . . مالك عن زيد بن اسلم عن ابيه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسير فى بعض اسفاره . . .»
. . . اسلم (تابعی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی سفر میں جا رہے تھے اور سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 572]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 4177، من حديث مالك به]
تفقه:
① بعض اوقات کسی مصروفیت یا عذر کی وجہ سے اگر سائل کے سوال کا جواب نہ دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
② رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے ہر وقت ڈرنا چاہئے۔
③ سورۂ فتح سفر میں نازل ہوئی تھی جبکہ آپ سواری پر سوار تھے۔
④ رات کو سفر کرنا جائز ہے۔
⑤ عالم پر ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہے لہٰذا اگر عالم جواب نہ دے تو سائل کو ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے چپ ہوجانا چاہئے، اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ فوری جواب دے۔
⑥ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تقوی اور حب رسول کے اعلی مقام پر فائز تھے۔
⑦ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بڑا مقام تھا۔
⑧ سند حدیث سے اس کے مرسل ہونے کا گمان ہوتا ہے، ابوالحسن القابسی رحمہ اللہ نے اسی شبہے کا ازالہ کیا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 167   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3262  
´سورۃ الفتح سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے، میں نے آپ سے کچھ کہا، آپ خاموش رہے، میں نے پھر آپ سے بات کی آپ پھر خاموش رہے، میں نے پھر بات کی آپ (اس بار بھی) خاموش رہے، میں نے اپنی سواری کو جھٹکا دیا اور ایک جانب (کنارے) ہو گیا، اور (اپنے آپ سے) کہا: ابن خطاب! تیری ماں تجھ پر روئے، تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین بار اصرار کیا، اور آپ نے تجھ سے ایک بار بھی بات نہیں کی، تو اس کا مستحق اور سزاوار ہے کہ تیرے بارے میں کوئی آیت نازل ہو (اور تجھے سرزنش کی جائے) عمر بن خطاب کہتے ہیں: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3262]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بیشک اے نبیﷺ!ہم نے آپﷺ کوایک کھلم کھلا فتح دی ہے (الفتح: 1)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3262   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4833  
4833. حضرت اسلم عدوی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں جا رہے تھے۔ حضرت عمر ؓ بھی رات کے وقت آپ ﷺ سے کچھ پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، پھر انہوں نے سوال کیا لیکن آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہ دیا۔ (تیسری مرتبہ) پھر انہوں نے پوچھا لیکن آپ نے پھر کوئی جواب نہ دیا۔ تب حضرت عمر فاروق ؓ نے (اپنے دل میں) کہا: عمر کی ماں اسے روئے! رسول اللہ ﷺ سے تم نے تین مرتبہ سوال میں اصرار کیا لیکن آپ ﷺ نے تمہیں کسی مرتبہ بھی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر ؓ کا بیان ہے کہ پھر میں نے اپنے اونٹ کو حرکت دی اور لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے ڈر تھا کہ مبادا میرے بارے میں قرآن کی کوئی آیت نازل ہو۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک پکارنے والا مجھے آواز دے رہا تھا۔ میں نے (دل میں) کہا: مجھے تو پہلے ہی خوف تھا مبادا میرے بارےمیں کوئی آیت نازل ہو جائے۔ میں رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4833]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہرسوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ تو خاموش ہی اس کا جواب ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باربار سوال کرنے پر اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

واضح رہے کہ یہ سفر عمرہ حدیبیہ سے واپس آنے کا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم حدیبیہ سے واپس ہوئے تو ہم پر غم اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے کیونکہ کفار مکہ ہمارے عمرے اورقربانیوں کے درمیان حائل ہوئے تھے، تو ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کو دنیا و ما فیھا سے عزیز قراردیا کیونکہ یہ نصرت اسلام، اتمام نعمت، اصحاب شجرہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور ان کے علاوہ بے شمار ایسے امور پر مشتمل ہے جو اہل اسلام کے لیے بشارت کا باعث ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی کا ذکر کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4833