صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا} :
باب: آیت کی تفسیر ”ہم نے تجھ کو کھلی ہوئی فتح دی ہے“۔
حدیث نمبر: 4835
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ:" قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ سُورَةَ الْفَتْحِ، فَرَجَّعَ فِيهَا"، قَالَ مُعَاوِيَةُ: لَوْ شِئْتُ أَنْ أَحْكِيَ لَكُمْ قِرَاءَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَفَعَلْتُ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن قرہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن سورۃ الفتح خوب خوش الحانی سے پڑھی۔ معاویہ بن قرہ نے کہا کہ اگر میں چاہوں کہ تمہارے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس موقع پر طرز قرآت کی نقل کروں تو کر سکتا ہوں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1467  
´قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے روز ایک اونٹنی پر سوار دیکھا، آپ سورۃ الفتح پڑھ رہے تھے اور (ایک ایک آیت) کئی بار دہرا رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1467]
1467. اردو حاشیہ: صحیح حدیث میں ہے کہ جناب معاویہ بن قرۃ نے حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت پڑھ کر سنائی۔ اور کہا کہ اگر لوگوں کے اکھٹے ہوجانے کا اندیشہ نہ ہوتا۔ تو میں تمھیں سیدنا ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت سناتا جو انہوں نے مجھے نبی کریمﷺ سے سنائی تھی۔ شعبہ کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا ان کی ترجیح کس طرح تھی؟ انہوں نے کہا: آآآ تین بار [صحیح بخاری، التوحید، حدیث: 7540]
ترجیع سے مراد آواز کو حلق میں لوٹانا اور بلند کرنا ہے۔ تاکہ لحن لزیز بن جائے۔ معلوم ہوا ترجیع اور عمدہ لحن سے قرآن پڑھنا مستحب اور مطلوب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1467   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4835  
4835. حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فتح مکہ کے دن سورہ فتح کی تلاوت فرمائی۔ تلاوت کرتے وقت خوش الحانی کو ملحوظ رکھا۔ حضرت معاویہ بن قرہ نے کہا: اگر میں چاہوں کہ تمہارے سامنے نبی ﷺ کی اس موقع پر طرز قراءت کی نقل کروں تو کر سکتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4835]
حدیث حاشیہ:

ترجیع گلے میں آواز پھیرنے کو کہتے ہیں جیسے خوش الحان لوگ کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس انداز سے قرآن پڑھنا اونٹنی پر بیٹھنے کی وجہ سے اضطراری نہیں تھا بلکہ آپ نے ارادہ اور اختیار سے خوش الحانی کے طورپر اس انداز کو اختیار کیا تھا کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ آپ بڑی نرمی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کررہے تھے۔
(صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5047)

آپ نے اس موقع کے علاوہ بھی قرآن مجید کی تلاوت اس انداز سےفرمائی ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی نے پوچھا:
آپ ترجیع کیسے کرتے تھے؟ تو بتایا گیا کہ آآآ تین بار مد کے ساتھ آواز کو دہراتے تھے۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7540)
اس انداز سے تلاوت کرنے میں خوشی کے جذبات بھی شامل تھے کیونکہ آپ فاتحانہ طور پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4835