صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ: {لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا} :
باب: آیت کی تفسیر ”تاکہ اللہ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دے اور آپ پر احسانات کی تکمیل کر دے اور آپ کو سیدھے راستہ پر لے چلے“۔
حدیث نمبر: 4837
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، سَمِعَ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ حَتَّى تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ تَصْنَعُ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ:" أَفَلَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا"، فَلَمَّا كَثُرَ لَحْمُهُ صَلَّى جَالِسًا، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَقَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ.
ہم سے حسن بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن یحییٰ نے بیان کیا، انہیں حیوہ نے خبر دی، انہیں ابوالاسود نے، انہوں نے عروہ سے سنا اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز میں اتنا طویل قیام کرتے کہ آپ کے قدم پھٹ جاتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا پھر میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں۔ عمر کے آخری حصہ میں (جب طویل قیام دشوار ہو گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر رات کی نماز پڑھتے اور جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو جاتے (اور تقریباً تیس یا چالیس آیتیں اور پڑھتے) پھر رکوع کرتے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4837  
4837. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ رات کی نماز میں اتنا طویل قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پھٹ جاتے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے (ایک مرتبہ) عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں، اللہ تعالٰی نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام لغزشیں معاف کر دی ہیں؟ آپ نے جواب دیا: تو کیا پھر میں اللہ تعالٰی کا شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں؟ آخری عمر میں جب آپ کا جسم فربہ ہو گیا تو آپ یہ نماز بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو کر کچھ قراءت فرماتے، پھر رکوع کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4837]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کے نازل ہونے سے بہت خوشی ہوئی، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپ حدیبیہ سے واپس مدینے جارہے تھے، آپ نے فرمایا:
مجھ پر یہ آیت اُتری ہے جو مجھے زمین کی ساری دولت سے زیادہ پیاری ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مبارک ہو، مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے تو وضاحت فرما دی جو آپ کے ساتھ وہ معاملہ کرے گا مگر ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا تو اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں:
تاکہ مومن مرد اور مومن عورتوں کو ایسے باغات میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان سے ان کی بُرائیاں دور کرے اور یہ اللہ کے نزدیک عظیم کامیابی ہے۔
(الفتح: 5: 48، وجامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3263)

فتح مکہ ایک دنیوی نعمت ہے اور اس کے ساتھ اخروی نعمت مغفرت کا ذکر فرمایا کیونکہ فتح مکہ حج کا سبب بنی اورحج، گناہوں کی مغفرت کے لیے ایک عظیم سبب ہے، پھر فتح مبین کے بعد لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہوئے اور اسلام کی دعوت کا کام عام ہوا۔
اس سے آپ کی زندگی کا مقصد پورا ہوا۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4837