صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
5. بَابُ: {إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”وہ وقت یاد کرو جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے“۔
حدیث نمبر: 4844
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سِيَاهٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا وَائِلٍ أَسْأَلُهُ، فَقَالَ: كُنَّا بِصِفِّينَ، فَقَالَ رَجُلٌ: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ؟ فَقَالَ عَلِيٌّ: نَعَمْ، فَقَالَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ: اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَعْنِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُشْرِكِينَ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا، فَجَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ؟ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ، وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا، فَقَالَ:" يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا"، فَرَجَعَ مُتَغَيِّظًا، فَلَمْ يَصْبِرْ حَتَّى جَاءَ أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ؟ قَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا، فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ.
ہم سے احمد بن اسحاق سلمی نے بیان کیا، کہا ہم سے یعلیٰ نے، کہا ہم سے عبدالعزیز بن سیاہ نے، ان سے حبیب بن ثابت نے، کہ میں ابووائل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے (خوارج کے متعلق) گیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم مقام صفین میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے (جہاں علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی جنگ ہوئی تھی) ایک شخص نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص کتاب اللہ کی طرف صلح کے لیے بلائے؟ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ لیکن خوارج نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس پر سہل بن حنیف نے فرمایا تم پہلے اپنا جائزہ لو۔ ہم لوگ حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے آپ کی مراد اس صلح سے تھی جو مقام حدیبیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی اور جنگ کا موقع آتا تو ہم اس سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ (لیکن صلح کی بات چلی تو ہم نے اس میں بھی صبر و ثبات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا) اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتولین جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں جائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا مظاہرہ کیوں کریں (یعنی دب کر صلح کیوں کریں) اور کیوں واپس جائیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آ گئے ان کو غصہ آ رہا تھا، صبر نہیں آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا، اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ ابوبکر نے بھی وہی جواب دیا کہ اے ابن خطاب! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ پھر سورۃ الفتح نازل ہوئی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4844  
4844. حضرت حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت ابو وائل کی خدمت میں ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے حاضر ہوا، انہوں نے کہا: ہم مقام صفین میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ اس دوران میں ایک شخص نے کہا: آپ کا ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو کتاب اللہ کی طرف صلح کے لیے بلائے جاتے ہیں؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا: ہاں ہم قرآنی فیصلے کے لیے تیار ہیں، (لیکن خوارج اس کے خلاف تھے۔) اس پر حضرت سہل بن حنیف ؓ نے فرمایا: تم اپنی رائے پر نظرثانی کرو۔ ہم لوگ حدیبیہ کے مقام پر تھے۔۔ ان کی مراد صلح حدیبیہ تھی جو نبی ﷺ اور مشرکین کے درمیان طے پائی تھی۔۔ اگر ہم مناسب سمجھتے تو ضرور جنگ کرتے۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ (رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں) حاضر ہوئے اور عرض کی: کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے شہداء جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا کفار کے مقتولین جہنم کا ایندھن نہیں بنیں گے؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4844]
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ کہ جب جنگ صفین میں حضرت علی کے لوگ حضرت معاویہ کے لوگوں پر غالب ہونے لگے تو حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ کو یہ مشورہ دیا کہ تم قرآن شریف حضرت علی کے پاس بھجواؤ اور کہو ہم تم دونوں اس پر عمل کریں۔
حضرت علی قرآن شریف پر ضرور راضی ہوں گے۔
جب قرآن شریف سامنے آیا تو حضرت علی نے کہا میں تو تم سے بڑھ کر اس پر عمل کرنے والا ہوں۔
اتنے میں خارجی لوگ آئے جن کو قراء کہتے تھے انہوں نے کہا کہ یا امیر المؤمنین! ہم تو انتظار نہیں کرنے کے ہم ان سے لڑنے جاتے ہیں، ہم تو ان سے لڑیں گے۔
خارجی کہتے تھے کہ ہم پنچائت یعنی تحکیم قبول نہیں کریں گے کیوں اللہ کے سوا اور کوئی حاکم نہیں ہوسکتا۔
لڑائی ہو اور دونوں میں کوئی غالب ہو۔
سہیل بن حنیف کی تقریر خوارج کے خلاف تھی جیسا کہ روایت میں مذکور ہے شارحین لکھتے ہیں۔
قوله سھل بن حنیف اتھموا أنفسکم فإني لا أقصر وما کنت مقصرا وقت الحاجة کما في یوم الحدیبیة فإني رأیت نفسي یومئذ بحیث لو قدرت مخالفة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لقاتلت قتالا عظیما لکن الیوم لا نری المصلحة في القتال بل التوقف لمصلحة المسلمین و أما الإنکار علی التحکیم إذ لیس أسر ذالك في کتاب اللہ فقال علی نعم لکن المنکرین منھم الذین عدلوا من کتاب اللہ لأن المجتھد لما رویٰ ظنه إلی جواز التحکیم فھو حکم اللہ وقاله سھل اتھمتم أنفسکم في الإنکار لأنا أیضا کنا کارھین ترك القتال یوم الحدیبیة وقھرنا النبي صلی اللہ علیه وسلم علی الصلح وقد أعقب خیرا کثیرا۔
(کرمانی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4844   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4844  
4844. حضرت حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت ابو وائل کی خدمت میں ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے حاضر ہوا، انہوں نے کہا: ہم مقام صفین میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ اس دوران میں ایک شخص نے کہا: آپ کا ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو کتاب اللہ کی طرف صلح کے لیے بلائے جاتے ہیں؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا: ہاں ہم قرآنی فیصلے کے لیے تیار ہیں، (لیکن خوارج اس کے خلاف تھے۔) اس پر حضرت سہل بن حنیف ؓ نے فرمایا: تم اپنی رائے پر نظرثانی کرو۔ ہم لوگ حدیبیہ کے مقام پر تھے۔۔ ان کی مراد صلح حدیبیہ تھی جو نبی ﷺ اور مشرکین کے درمیان طے پائی تھی۔۔ اگر ہم مناسب سمجھتے تو ضرور جنگ کرتے۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ (رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں) حاضر ہوئے اور عرض کی: کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے شہداء جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا کفار کے مقتولین جہنم کا ایندھن نہیں بنیں گے؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4844]
حدیث حاشیہ:

واقعات یہ ہیں کہ جنگ صفین میں جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپاہی، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپاہیوں پر غالب ہونے لگے تو حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مشورہ دیا کہ تم قرآن کریم کو بلند کرو اور کہو کہ اس قرآن پر دونوں فیصلہ کرلیں۔
جب قرآن کریم سامنے آیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
میں تم لوگوں سے بڑ ھ کر اس پر عمل کرنے والا ہوں۔
اتنے میں خوارج درمیان میں بھڑک اُٹھے اور کہنے لگے کہ ہمیں یہ فیصلہ منظور نہیں کیونکہ فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کا ہونا چاہیے، ہم اس فیصلے کا انتظار نہیں کرتے۔
ہم تو ضرور جنگ کریں گے۔
اس صورت حال کے پیش نظر حضت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقریر کی جو خوارج کے خلاف تھی۔
آپ نے کہا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہمارے سامنے ایسی شرائط آئیں کہ ہم انھیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے بلکہ مرنے اور مارنے کے لیے آمادہ تھے لیکن ہم نے اپنے جذبات پر کنٹرول کیا اور اپنی رائے پر نظر ثانی کی تواس میں اللہ تعالیٰ نے خیروبرکت عطا فرمائی۔

بہرحال صلح حدیبیہ جسے مسلمان بظاہر اپنی توہین اور شکست سمجھ رہے تھے وہ درحقیقت ان کی معجزانہ فتح تھی جس کے متعلق کفار تو درکنار مسلمانوں کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں کرپائے تھے، پھر جوں جوں اس کے نتائج سامنے آتے گئے، مسلمانوں کو یقین ہوتا چلا گیا کہ واقعی یہ صلح اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو احساس ہوا وہ خود فرماتے ہیں کہ اس موقع پر مجھ سے جو بے ادبی پر مشتمل گفتگو ہوئی اس کی تلافی کے لیے میں نے اس کے بعد کئی نیک عمل کیے۔
(صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2731)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4844