صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {لاَ تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ} الآيَةَ:
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! نبی کی آواز سے اپنی آوازوں کو اونچا نہ کیا کرو“۔
حدیث نمبر: 4846
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: أَنْبَأَنِي مُوسَى بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَقَدَ ثَابِتَ بْنَ قَيْسٍ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا أَعْلَمُ لَكَ عِلْمَهُ، فَأَتَاهُ، فَوَجَدَهُ جَالِسًا فِي بَيْتِهِ مُنَكِّسًا رَأْسَهُ، فَقَالَ لَهُ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقَالَ: شَرٌّ كَانَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَأَتَى الرَّجُلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ، قَالَ: كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ مُوسَى: فَرَجَعَ إِلَيْهِ الْمَرَّةَ الْآخِرَةَ بِبِشَارَةٍ عَظِيمَةٍ، فَقَالَ:" اذْهَبْ إِلَيْهِ، فَقُلْ لَهُ إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَلَكِنَّكَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ازہر بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عون نے خبر دی، کہا کہ مجھے موسیٰ بن انس نے خبر دی، اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کے لیے ان کی خبر لاتا ہوں۔ پھر وہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے دیکھا کہ وہ گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں پوچھا کیا حال ہے؟ کہا کہ برا حال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کے مقابلہ میں بلند آواز سے بولا کرتا تھا اب سارے نیک عمل اکارت ہوئے اور اہل دوزخ میں قرار دے دیا گیا ہوں۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے جو کچھ کہا تھا اس کی اطلاع آپ کو دی۔ موسیٰ بن انس نے بیان کیا کہ وہ شخص اب دوبارہ ان کے لیے ایک عظیم بشارت لے کر ان کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ تم اہل دوزخ میں سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت میں سے ہو۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4846  
4846. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیس ؓ کو اپنی مجلس میں گم پایا تو ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس کا حال معلوم کر کے آپ کو بتاؤں گا، چنانچہ وہ گیا تو حضرت ثابت بن قیس ؓ کو اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے دیکھا، پوچھا: کیا حال ہے؟ کہنے لگے: برا حال ہے، میری تو آواز ہی نبی ﷺ کی آواز سے بلند ہوتی تھی، میرے تو اعمال ضائع ہو گئے اور میں اہل دوزخ سے قرار دیا گیا ہوں۔ وہ آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو حالات سے آگاہ کیا کہ انہوں نے یہ یہ کہا ہے، چنانچہ وہ دوبارہ ان کے لیے ایک عظیم بشارت لے کر ان کے پاس آیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان کے پاس جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ تم اہل دوزخ سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت سے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4846]
حدیث حاشیہ:
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ انصار کے خطیب ہیں ان کی آواز بہت بلند تھی۔
جب مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند آواز سے بولنے سے منع کیا گیا تو اتنے غم زدہ ہوئے کہ گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں نہیں دیکھا تو ان کے متعلق پوچھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4846   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4846  
4846. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیس ؓ کو اپنی مجلس میں گم پایا تو ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس کا حال معلوم کر کے آپ کو بتاؤں گا، چنانچہ وہ گیا تو حضرت ثابت بن قیس ؓ کو اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے دیکھا، پوچھا: کیا حال ہے؟ کہنے لگے: برا حال ہے، میری تو آواز ہی نبی ﷺ کی آواز سے بلند ہوتی تھی، میرے تو اعمال ضائع ہو گئے اور میں اہل دوزخ سے قرار دیا گیا ہوں۔ وہ آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو حالات سے آگاہ کیا کہ انہوں نے یہ یہ کہا ہے، چنانچہ وہ دوبارہ ان کے لیے ایک عظیم بشارت لے کر ان کے پاس آیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان کے پاس جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ تم اہل دوزخ سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت سے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4846]
حدیث حاشیہ:

حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطیب الانصار تھے۔
مسیلمہ کذاب جب مدینہ طیبہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی کو اس سے گفتگو کرنے کے لیے مقررفرمایا تھا۔
ان کی آواز قدرتی طور پر بھاری اور بلند تھی، اس لیے آپ آیت میں مذکور حکم سے ڈر گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا کہ تم بےادبی اور عدم احترام کی وجہ سے آواز بلند نہیں کرتے بلکہ قدرتی طور پر تمہاری آواز بلند ہے، اس لیے قابل مواخذہ نہیں۔

یہ حکم صرف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہی کے لیے مخصوص نہیں تھا بلکہ اس کا اطلاق طور پر تمہاری آوازبلند ہے، اس لیے قابل مواخذہ نہیں۔

یہ حکم صرف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہی کے لیے مخصوص نہیں تھا بلکہ اس کا اطلاق ایسے مواقع پر بھی ہوتا ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو رہا ہو، آپ کی احادیث بتائی جارہی ہوں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو مسجد نبوی میں اونچی آواز سے بولنے والوں کا محاسبہ کرتے تھے، چنانچہ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا کہ مجھے ایک آدمی نے کنکری ماری میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
انھوں نے مجھے حکم دیا کہ ان دو آدمیوں کو پکڑ کر میرے پاس لاؤ۔
میں انھیں پکڑ کر آپ کے پاس لایا تو آپ نے ان سے پوچھا:
تم کہاں سے آئے ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم طائف سے آئے ہیں۔
آپ نے فرمایا:
اگرتم مدینے کے باشندے ہوتے تو میں تمھیں سزا دیتا۔
تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہو۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 470)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4846