صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابٌ:
باب:۔۔۔
وَقَالَ قَتَادَةُ: مَسْطُورٍ: مَكْتُوبٍ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الطُّورُ الْجَبَلُ بِالسُّرْيَانِيَّةِ، رَقٍّ مَنْشُورٍ: صَحِيفَةٍ، وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ: سَمَاءٌ، الْمَسْجُورِ: الْمُوقَدِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: تُسْجَرُ حَتَّى يَذْهَبَ مَاؤُهَا، فَلَا يَبْقَى فِيهَا قَطْرَةٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَلَتْنَاهُمْ: نَقَصْنَا، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَمُورُ تَدُورُ، أَحْلَامُهُمْ: الْعُقُولُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْبَرُّ: اللَّطِيفُ كِسْفًا قِطْعًا الْمَنُونُ الْمَوْتُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: يَتَنَازَعُونَ: يَتَعَاطَوْنَ.
‏‏‏‏ قتادہ نے کہا «مسطور‏» بمعنی «مكتوب‏» یعنی لکھی ہوئی ہے۔ مجاہد نے کہا «الطور» سریانی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں «رق منشور‏» یعنی صحیفہ کھلا ہوا ورق۔ «لسقف المرفوع‏» یعنی آسمان۔ «المسجور» یعنی گرم کیا گیا۔ حسن بصری نے کہا «مسجور» سے مراد یہ ہے کہ سمندر میں ایک دن طغیانی آ کر اس کا سارا پانی سوکھ جائے گا اور اس میں ایک قطرہ بھی باقی نہ رہے گا۔ مجاہد نے کہا کہ «ألتناهم‏» کے معنی گھٹایا، کم کیا۔ مجاہد کے علاوہ دوسروں نے کہا کہ «تمور‏» گھومے گا۔ «أحلامهم‏» کے معنی ان کی عقلیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «البر‏» کے معنی مہربان۔ «كسفا‏» کے معنی ٹکڑے۔ «المنون» کے معنی موت۔ اوروں نے کہا «يتنازعون‏» کا معنی ایک دوسرے سے جھپٹ لیں انہیں مذاق سے یا لڑائی سے۔
حدیث نمبر: 4853
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: شَكَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَشْتَكِي، فَقَالَ:" طُوفِي مِنْ وَرَاءِ النَّاسِ وَأَنْتِ رَاكِبَةٌ"، فَطُفْتُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ يَقْرَأُ بِالطُّورِ، وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل نے، انہیں عروہ نے، انہیں زینب بنت ابی سلمہ نے اور ان سے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ (حج کے موقع پر) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں بیمار ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سواری پر بیٹھ کر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرے چنانچہ میں نے طواف کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خانہ کعبہ کے پہلو میں نماز پڑھتے ہوئے سورۃ والطور و کتاب مسطور کی تلاوت کر رہے تھے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 302  
´ معذور اور بیمار شخص سواری پر طواف کر سکتا ہے`
«. . . عن أم سلمة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت: شكوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أني أشتكي فقال: طوفي من وراء الناس وأنت راكبة . . .»
. . . ‏‏‏‏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی کہ میں بیمار ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں سے پیچھے ہٹ کر سواری کی حالت میں ہی طواف کرو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0: 302]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 464، ومسلم 1276، من حديث مالك به]

تفقه
➊ اس پر اجماع ہے کہ معذور اور بیمار شخص سواری (مثلاً کرسی، ہاتھ والی چارپائی وغیرہ) پر بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کر سکتا ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 13/99،]
➋ قول راجح میں یہ صبح کی نماز تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا رہے تھے۔
➌ جس طرح نماز میں عورتیں مردوں کی صف سے پیچھے ہوتی ہیں اسی طرح طواف کے دوران میں بھی انھیں مردوں سے ہٹ کر اور پیچھے رہ کر طواف کرنا چاہیے۔ اگر علیحدہ طواف کا بندوبست نہ ہو تو اضطراری حالت کی وجہ سے مردوں کے ساتھ ہی، علیحدہ رہ کر طواف کرنا جائز ہے جیسا کہ صحيح بخاري [1618] کی حدیث سے ثابت ہے۔
➍ عورت پر نماز باجماعت میں شرکت ضروری نہیں ہے خواہ وہ مسجد میں ہو۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 91   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2961  
´بیمار کے سواری پر طواف کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ بیمار ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لوگوں کے پیچھے سوار ہو کر طواف کرنے کا حکم دیا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ «والطور وكتاب مسطور» کی قرات فرما رہے تھے۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: یہ ابوبکر بن ابی شیبہ کی روایت ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2961]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کسی معقول عذر کی بناء پر طواف سواری پر کیا جاسکتا ہے۔

(2)
آج کل معمر افراد جو چل کر طواف نہیں کرسکتے ڈولی وغیرہ پر طواف کرلیتے ہیں۔
اس حدیث کی روشنی میں ان کا یہ عمل درست ہے۔
اسی طرح زیادہ رش اور ہجوم کی صورت میں طواف کا دوگانہ بھی مسجد سے باہر ادا کیا جا سکتا ہے۔ (صحيح البخاري، الحج، باب من صلي ركعتي الطواف خارجاً من المسجد، حديث: 1626)

(3)
حدیث میں جس نماز کا ذکر ہے وہ فجر کی نماز تھی۔ (صحيح البخاري، حوالہ مذکورہ بالا)

(4)
رسول اللہ ﷺ نے ایک بار خود بھی اونٹنی پر سوار ہو کر طواف کیا تھا۔ (صحيح البخاري، الحج، باب المريض يطوف راكباً، حديث: 1632 وسنن ابن ماجة، المناسك، باب: 28، حديث: 2948/ 2949)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2961   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1882  
´طواف واجب کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے طواف کر لو ۱؎، تو میں نے طواف کیا اور آپ خانہ کعبہ کے پہلو میں اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، اور «الطور * وكتاب مسطور» کی تلاوت فرما رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1882]
1882. اردو حاشیہ: سواری پر طواف کرنا رسول اللہ ﷺکی خصوصیت نہ تھی بلکہ ہر صاحب عذر کو اس کی رخصت حاصل ہے۔
➋ طواف میں عورتوں کو حتیٰ الامکان اختلاط سے بچنا چاہیے۔
➌ عورتوں کو مردوں کی جماعت میں شریک ہونا واجب نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1882   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4853  
4853. حضرت ام سلمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: میں بیمار ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم سواری پر بیٹھ کر لوگوں کے پیچھے سے طواف کر لو۔ چنانچہ میں نے طواف کیا تو رسول اللہ ﷺ اس وقت خانہ کعبہ کے پہلو میں نماز پڑھتے ہوئے سورہ وَٱلطُّورِ ﴿١﴾ وَكِتَـٰبٍ مَّسْطُورٍ ﴿٢﴾ کی تلاوت کر رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4853]
حدیث حاشیہ:
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیماری کی وجہ سے لوگوں کے ہمراہ طواف نہیں کر سکتی تھیں اس لیے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق مسئلہ پوچھا تھا چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ کے لیے روانہ ہونے کا ارادہ کر رہے تھے جبکہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیماری کی وجہ سے طواف وداع نہیں کرسکی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب صبح کی نماز کھڑی ہو جائے تو اونٹ پر سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے سے اپنا طواف مکمل کر لے۔
چنانچہ انھوں نے لوگوں کے نماز پڑھنے کے دوران اپنا طواف مکمل کیا اور طواف کی دو رکعتیں باہر جا کر ادا کیں۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1626)
اس تفصیلی روایت سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت طواف کی دو رکعت کو مؤخر کیا جا سکتا ہے اور انھیں بیت اللہ سے باہر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4853