صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ: {أَفَرَأَيْتُمُ اللاَّتَ وَالْعُزَّى} :
باب: آیت کی تفسیر ”بھلا تم نے لات اور عزیٰ کو بھی دیکھا ہے“۔
حدیث نمبر: 4859
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ: اللَّاتَ وَالْعُزَّى سورة النجم آية 19 كَانَ اللَّاتُ رَجُلًا يَلُتُّ سَوِيقَ الْحَاجِّ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم فراہیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاشھب جعفر بن حیان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالجوزاء نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لات اور عزیٰ کے حال میں کہا کہ لات ایک شخص کو کہتے تھے وہ حاجیوں کے لیے ستو گھولتا تھا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4859  
4859. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے لات اور عُزٰی کے متعلق فرمایا کہ لات وہ شخص تھا جو حاجیوں کو ستو تیار کر کے پلاتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4859]
حدیث حاشیہ:
اسی لئے بعضوں نے لات کو بتشدید تاء پڑھا ہے اور جنہوں نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے ان کی قراءت پر یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ کثرت استعمال سے تخفیف ہو گئی۔
کہتے ہیں اس شخص کا نام عمرو بن لحی یا حرمہ بن غنم تھا۔
یہ گھی اور ستو ملا کر ایک پتھر کے پاس حاجیوں کو کھلایا کرتا جب مر گیا تو لوگ اس پتھر کو پوجنے لگے، جہاں پہ کھلایا کرتا تھا اور اس پتھر کانام لات رکھ دیا تاکہ اس شخص کی یاد گار رہے۔
ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نکالا جو کوئی اس کا ستو کھاتا وہ موٹا ہوجاتا اس لئے اس کی پرستش کرنے لگے خدا وند قدوس کی مار ہو ان بے وقوفوں پر۔
(وحیدی)
اب بھی بہت سے کم فہم عوام کا یہی حال ہے کہ اپنی خود ساختہ عقیدت کی بنا پر کتنے ہی بزرگان کو ان کی وفات کے بعد قاضی الحاجات سمجھ کر ان کی پوجا پرستش شروع کر دیتے ہیں۔
آج ٹاٹا نگر جمشید پور بہار میں برمکان جناب محمد اسحاق صاحب گارڈ یہ نوٹ لکھ رہا ہوں یہاں بتلایا گیا کہ بالکل اسی طرح سے ایک صاحب یہاں چونا بھٹی میں کام کیا کرتے تھے اتفاق سے وہ دیوانے ہو گئے اور لوگوں نے ان کو خدا رسیدہ سمجھ کر بابا بنا لیا۔
اب ان کے انتقال کے بعد ان کی قبر کو مزار کی شکل میں آراستہ پیراستہ کر کے چونا بابا کے نام مشہور کردیا گیا ہے اور وہاں سالانہ عرس اور قوالیاں ہوتی ہیں بہت سے لوگ ان کو قاضی الحاجات سمجھ کر ان کی قبر پر ہاتھ باندھ کر اپنی عرضیاں پیش کرتے ہیں۔
خدا جانے مسلمانوں کی عقل کہاں ماری گئی ہے کہ وہ ایسے توہمات میں مبتلا ہو کر پر چم توحید کی اپنے ہاتھوں سے دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔
إنا للہ اللھم اھد قومي فإنھم لا یعلمون آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4859   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4859  
4859. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے لات اور عُزٰی کے متعلق فرمایا کہ لات وہ شخص تھا جو حاجیوں کو ستو تیار کر کے پلاتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4859]
حدیث حاشیہ:

لات کے متعلق توجیہات ہیں:
ایک یہ کہ اسے لفظ "اللہ" سے ماخوذ مانا جائے۔
بعض اہل علم کے نزدیک لات بلیت سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں۔
گردن موڑنا۔
چونکہ اس کی پوجا کرنے والے اس کی طرف اپنی گردنیں موڑتے اور اس کی عبادت کرتے تھے اس بنا پر اس کا نام لات رکھ دیا گیا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔
یہ ایک نیک سیرت انسان تھا جو حج کے موسم میں حجاج کرام کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا۔
جب وہ مر گیا تو لوگوں نے اس کی قبر کو عبادت گاہ بنا لیا۔
پھراس کے مجسمے بنا کر مختلف مقامات پر نصب کر دیے گئے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4859