صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ: {تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِمَنْ كَانَ كُفِرَ* وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ} :
باب: آیت «تجري بأعيننا جزاء لمن كان كفر* ولقد تركناها آية فهل من مدكر» کی تفسیر۔
قَالَ قَتَادَةُ: أَبْقَى اللَّهُ سَفِينَةَ نُوحٍ حَتَّى أَدْرَكَهَا أَوَائِلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ.
قتادہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی کشتی کو باقی رکھا اور اس امت کے بعض پہلے بزرگوں نے اسے جودی پہاڑ پر دیکھ لیا۔
حدیث نمبر: 4869
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ: فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 15".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے اسود نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «فهل من مدكر‏» پڑھا کرتے تھے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2937  
´سورۃ القمر میں «مدکر» کو دال مہملہ سے پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «فهل من مدكر» ۱؎ پڑھتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب القراءات/حدیث: 2937]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہی مشہور قراء ت ہے یعنی دال مہملہ کے ساتھ اس کی اصل ہے (مُذْتَکِر) (بروزن (مُجْتَنِب) تاء کو دال مہملہ سے بدل دیا اور ذال کو دال میں مدغم کر دیا تو  ﴿مُدَّکِر﴾  ہو گیا،
بعض قراء نے (مُذَّکِر) (ذال معجم کے ساتھ) پڑھا ہے بہرحال معنی ہے:
پس کیا کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا (القمر: 40)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2937   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4869  
4869. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ پڑھا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4869]
حدیث حاشیہ:

روایات میں یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عام قراءت کی طرح (مُّدَّكِرٍ)
پڑھا کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنیباء، حدیث: 3341)
یعنی ہم نے اس کشتی کو نشان عبرت بنا دیا اس سے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔

اس کا ایک بلند و بالا پہاڑ پر موجود ہونا سیکڑوں، ہزاروں برس تک لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے غضب سے خبردار کرتا رہا۔
اور انھیں یاد دلاتا رہا کہ اس سر زمین پر اللہ کی نا فرمانی کرنے والوں کی کیسی شامت آئی اور ایمان لانے والوں کو کس طرح اس شامت سے بچا لیا گیا؟ موجودہ زمانے میں بھی ہوائی جہازوں سے پرواز کرتے ہوئے بعض لوگوں نے اس علاقے کی ایک چوٹی پر کشتی نما چیز پڑی دیکھی ہے جس پر شبہ کیا جا تا ہے کہ وہ سفینہ نوح ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4869