صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
6. بَابُ قَوْلِهِ: {بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ} :
باب: آیت کی تفسیر ”بلکہ ان کا اصل وعدہ تو قیامت کے دن کا ہے اور قیامت بڑی سخت اور تلخ ترین چیز ہے“۔
حدیث نمبر: 4877
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ لَهُ يَوْمَ بَدْرٍ:"أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْيَوْمِ أَبَدًا"، فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بِيَدِهِ، وَقَالَ: حَسْبُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَدْ أَلْحَحْتَ عَلَى رَبِّكَ وَهُوَ فِي الدِّرْعِ، فَخَرَجَ وَهُوَ يَقُولُ:" سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ {45} بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ {46} سورة القمر آية 45-46".
مجھ سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے، کہا ان سے خالد بن مہران حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ آپ بدر کی لڑائی کے موقع پر میدان میں ایک خیمے میں یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور وعدہ نصرت یاد دلاتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہے کہ (مسلمانوں کو فنا کر دے) تو آج کے بعد پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ اور اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا: بس یا رسول اللہ! آپ اپنے رب سے خوب الحاح و زاری کے ساتھ دعا کر چکے ہیں۔ نبی کریم اس وقت زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ باہر تشریف لائے تو آپ کی زبان مبارک پر یہ آیت تھی «سيهزم الجمع ويولون الدبر * بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر‏» یعنی عنقریب کافروں کی یہ جماعت ہار جائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ لیکن ان کا اصل وعدہ تو قیامت کے دن کا ہے اور قیامت بڑی سخت اور بہت ہی کڑوی چیز ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3081  
´سورۃ الانفال سے بعض آیات کی تفسیر​۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (جنگ بدر کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مشرکین مکہ پر) ایک نظر ڈالی، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے صحابہ تین سو دس اور کچھ (کل ۳۱۳) تھے۔ پھر آپ قبلہ رخ ہو گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اللہ کے حضور پھیلا دیئے اور اپنے رب کو پکارنے لگے: اے میرے رب! مجھ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا فرما دے، جو کچھ تو نے مجھے دینے کا وعدہ فرمایا ہے، اسے عطا فرما دے، اے میرے رب! اگر اہل اسلام کی اس مختصر جماعت کو تو نے ہلاک کر دیا تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ کی جا سکے گی۔‏‏‏‏ آپ قبلہ کی طرف منہ کیے ہوئے اپنے دونوں ہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3081]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یاد کرو اس وقت کو جب تم اپنے رب سے فریاد رسی چاہتے تھے تو اللہ نے تمہاری درخواست قبول کر لی،
اور فرمایا:
میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا وہ پیہم یکے بعد دیگرے آتے رہیں گے،
تو اللہ نے ان کی فرشتوں سے مدد کی(الأنفال: 9) 2؎:
یعنی فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کا واقعہ بدر کے دن پیش آیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3081   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4877  
4877. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بدر کے دن ایک خیمے میں تھے۔ آپ نے بایں الفاظ دعا کی: اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور تیرا وعدہ یاد دلاتا ہوں، اے اللہ! اگر تو چاہے (تو مسلمانوں کو فنا کر دے) تو آج کے بعد پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اپنے رب سے خوب گریہ و زاری سے دعا کر چکے ہیں، اب بس کیجیے۔ اس وقت آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ باہر تشریف لائے تو آپ کی زبان پر یہ آیت تھی: عنقریب اس جماعت کو شکست دی جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے گی، بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور انتہائی کڑوی چیز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4877]
حدیث حاشیہ:
قیامت کی سختیوں اور دوزخ کے عذابوں پر اشارہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4877   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4877  
4877. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بدر کے دن ایک خیمے میں تھے۔ آپ نے بایں الفاظ دعا کی: اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور تیرا وعدہ یاد دلاتا ہوں، اے اللہ! اگر تو چاہے (تو مسلمانوں کو فنا کر دے) تو آج کے بعد پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اپنے رب سے خوب گریہ و زاری سے دعا کر چکے ہیں، اب بس کیجیے۔ اس وقت آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ باہر تشریف لائے تو آپ کی زبان پر یہ آیت تھی: عنقریب اس جماعت کو شکست دی جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے گی، بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور انتہائی کڑوی چیز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4877]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت دو احادیث پیش کی ہیں:
پہلی حدیث میں پیش گوئی کا وقت اور دوسری حدیث میں اس کا مصداق سامنے آنے کا وقت بیان ہوا ہے۔

سرداران قریش کو دنیا و آخرت میں کس قدر ذلت سے دوچار ہونا پڑا اس کی وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قریش کے چوبیس (24)
مقتول سردار بدر کے ایک بہت ہی تاریک اور گندے کنویں میں پھینک دیے گئے، پھرآپ اس کے کنارے کھڑے ہوئے اور کفار قریش کے مقتول سرداروں کے نام لے کر انھیں آواز دینے لگے:
اے فلاں! اے فلاں! اے فلاں! اے فلاں!کیا آج تمہارے لیے یہ بات بہتر نہیں تھی کہ تم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ہوتی؟بے شک ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہمیں پوری طرح حاصل ہوگیا،تو کیا تمہارے رب کاتمہارے متعلق جو وعدہ (عذاب)
تھا وہ بھی تمھیں پوری طرح مل گیا؟(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3976)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4877