صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
55. سورة {الرَّحْمَنِ} :
باب: سورۃ الرحمن کی تفسیر۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: بِحُسْبَانٍ كَحُسْبَانِ الرَّحَى، وَقَالَ غَيْرُهُ: وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ: يُرِيدُ لِسَانَ الْمِيزَانِ وَالْعَصْفُ بَقْلُ الزَّرْعِ إِذَا قُطِعَ مِنْهُ شَيْءٌ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَ، فَذَلِكَ الْعَصْفُ، وَالرَّيْحَانُ: رِزْقُهُ، وَالْحَبُّ: الَّذِي يُؤْكَلُ مِنْهُ وَالرَّيْحَانُ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ الرِّزْقُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: وَالْعَصْفُ يُرِيدُ الْمَأْكُولَ مِنَ الْحَبِّ وَالرَّيْحَانُ النَّضِيجُ الَّذِي لَمْ يُؤْكَلْ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْعَصْفُ وَرَقُ الْحِنْطَةِ، وَقَالَ الضَّحَّاكُ: الْعَصْفُ التِّبْنُ، وَقَالَ أَبُو مَالِكٍ: الْعَصْفُ أَوَّلُ مَا يَنْبُتُ تُسَمِّيهِ النَّبَطُ هَبُورًا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْعَصْفُ وَرَقُ الْحِنْطَةِ، وَالرَّيْحَانُ الرِّزْقُ، وَالْمَارِجُ اللَّهَبُ الْأَصْفَرُ وَالْأَخْضَرُ الَّذِي يَعْلُو النَّارَ إِذَا أُوقِدَتْ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنْ مُجَاهِدٍ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ: لِلشَّمْسِ فِي الشِّتَاءِ مَشْرِقٌ وَمَشْرِقٌ فِي الصَّيْفِ، وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ: مَغْرِبُهَا فِي الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ، لَا يَبْغِيَانِ: لَا يَخْتَلِطَانِ، الْمُنْشَآتُ: مَا رُفِعَ قِلْعُهُ مِنَ السُّفُنِ فَأَمَّا مَا لَمْ يُرْفَعْ قَلْعُهُ فَلَيْسَ بِمُنْشَأَةٍ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: كَالْفَخَّارِ: كَمَا يُصْنَعُ الْفَخَّارُ الشُّوَاظُ لَهَبٌ مِنْ نَارٍ، وَنُحَاسٌ: النُّحَاسُ الصُّفْرُ يُصَبُّ عَلَى رُءُوسِهِمْ فَيُعَذَّبُونَ بِهِ، خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ: يَهُمُّ بِالْمَعْصِيَةِ فَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَتْرُكُهَا، مُدْهَامَّتَانِ: سَوْدَاوَانِ مِنَ الرِّيِّ، صَلْصَالٍ: طِينٌ خُلِطَ بِرَمْلٍ فَصَلْصَلَ كَمَا يُصَلْصِلُ الْفَخَّارُ، وَيُقَالُ: مُنْتِنٌ يُرِيدُونَ بِهِ صَلَّ، يُقَالُ: صَلْصَالٌ كَمَا، يُقَالُ: صَرَّ الْبَابُ عِنْدَ الْإِغْلَاقِ وَصَرْصَرَ مِثْلُ كَبْكَبْتُهُ يَعْنِي كَبَبْتُهُ، فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ الرُّمَّانُ وَالنَّخْلُ بِالْفَاكِهَةِ، وَأَمَّا الْعَرَبُ فَإِنَّهَا تَعُدُّهَا فَاكِهَةً كَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى، فَأَمَرَهُمْ بِالْمُحَافَظَةِ عَلَى كُلِّ الصَّلَوَاتِ، ثُمَّ أَعَادَ الْعَصْرَ تَشْدِيدًا لَهَا كَمَا أُعِيدَ النَّخْلُ وَالرُّمَّانُ وَمِثْلُهَا، أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ قَالَ: وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ، وَقَدْ ذَكَرَهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي أَوَّلِ قَوْلِهِ: مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: أَفْنَانٍ: أَغْصَانٍ، وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ: مَا يُجْتَنَى قَرِيبٌ، وَقَالَ الْحَسَنُ: فَبِأَيِّ آلَاءِ: نِعَمِهِ، وَقَالَ قَتَادَةُ: رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ يَعْنِي الْجِنَّ وَالْإِنْسَ، وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ: يَغْفِرُ ذَنْبًا وَيَكْشِفُ كَرْبًا وَيَرْفَعُ قَوْمًا وَيَضَعُ آخَرِينَ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَرْزَخٌ: حَاجِزٌ الْأَنَامُ الْخَلْقُ، نَضَّاخَتَانِ: فَيَّاضَتَانِ، ذُو الْجَلَالِ: ذُو الْعَظَمَةِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مَارِجٌ خَالِصٌ مِنَ النَّارِ، يُقَالُ: مَرَجَ الْأَمِيرُ رَعِيَّتَهُ إِذَا خَلَّاهُمْ يَعْدُو بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَيُقَالُ: مَرَجَ أَمْرُ النَّاسِ، مَرِيجٍ: مُلْتَبِسٌ، مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ: اخْتَلَطَ الْبَحْرَانِ مِنْ مَرَجْتَ دَابَّتَكَ تَرَكْتَهَا، سَنَفْرُغُ لَكُمْ: سَنُحَاسِبُكُمْ لَا يَشْغَلُهُ شَيْءٌ عَنْ شَيْءٍ وَهُوَ مَعْرُوفٌ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ، يُقَالُ: لَأَتَفَرَّغَنَّ لَكَ وَمَا بِهِ شُغْلٌ، يَقُولُ: لَآخُذَنَّكَ عَلَى غِرَّتِكَ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «بحسبان» یعنی چکی کی طرح گھوم رہے ہیں۔ اوروں نے کہا «وأقيموا الوزن‏» کا معنی یہ ہے کہ ترازو کی زبان سیدھی رکھو (یعنی برابر تولو)۔ «عصف‏.‏» کہتے ہیں کھیتی کی اس پیداوار (سبزے) کو جس کو پکنے سے پہلے کاٹ لیں یہ تو «عصف‏.‏» کے معنی ہوئے اور یہاں «ريحان‏» سے کھیتی کے پتے اور دانے جن کو کھاتے ہیں مراد ہیں۔ اور «ريحان‏» عربوں کی زبان میں روزی کو کہتے ہیں بعضوں نے کہا خوشبودار سبزے کو بعضوں نے کہا «عصف‏.‏» وہ دانہ جن کو کھاتے ہیں اور «ريحان‏» وہ پکا غلہ جس کو کچا نہیں کھاتے۔ اوروں نے کہا «عصف‏.‏» گیہوں کے پتے ہیں۔ ضحاک نے کہا «عصف‏.‏» بھوسا جو جانور کھاتے ہیں۔ ابو مالک غفاری (تابعی) نے کہا «عصف‏.‏» کھیتی کا وہ سبزہ جو پہلے پہل اگتا ہے کسان لوگ اس کو «هبور» کہتے ہیں۔ مجاہد نے کہا «عصف‏.‏» گیہوں کا پتا اور «ريحان‏» روزی کا۔ «المارج» آگ کی لپٹ (کو) زرد یا سبز جو آگ روشن کرنے پر اوپر چڑھتی ہے بعضوں نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ «رب المشرقين‏ ورب المغربين‏» میں «مشرقين‏» سے جاڑے اور گرمی کی مشرق اور «مغربين‏» سے جاڑے گرمی کی مغرب مراد ہے۔ «لا يبغيان‏» مل نہیں جاتے۔ «المنشآت‏» وہ کشتیاں جن کا بادبان اوپر اٹھایا گیا ہو (وہی دور سے پہاڑ کی طرح معلوم ہوتی ہیں) اور جن کشتیوں کا بادبان نہ چڑھایا جائے ان کو «المنشآت‏» نہیں کہیں گے۔ مجاہد نے کہا «كالفخار» یعنی جیسا ٹھیکرا بنایا جاتا ہے۔ «الشواز» آگ کا شعلہ جس میں دھواں ہو۔ «فنحاس‏» پیتل جو گلا کر دوزخیوں کے سر پر ڈالا جائے گا ان کو اسی سے عذاب دیا جائے گا۔ «خاف مقام ربه‏» کا یہ مطلب ہے کہ کوئی آدمی گناہ کرنے کا قصد کرے پھر اپنے پروردگار کو یاد کر کے اس سے باز آ جائے۔ «مدهامتان‏» بہت شادابی کی وجہ سے کالے یا سبز ہو رہے ہوں گے۔ «صلصال‏» وہ گارا کیچڑ جس میں ریت ملائی جائے وہ ٹھیکری کی طرح کھنکھنانے لگے۔ بعضوں نے کہا کہ «صلصال‏» بدبودار کیچڑ، جیسے کہتے ہیں «صل اللحم» یعنی گوشت بدبودار ہو گیا، سڑ گیا جیسے «صر الباب» دروازے بند کرتے وقت آواز دی اور «صرصر الباب» اور «كببته‏» کو «كبكبته» کہتے ہیں۔ «فاكهة ونخل ورمان‏» یعنی وہاں میوہ ہو گا اور کھجور اور انار اس آیت سے بعضوں نے (امام حنیفہ نے) یہ نکالا ہے کہ کھجور اور انار میوہ نہیں ہیں۔ عرب لوگ تو ان دونوں کو میوؤں میں شمار کرتے ہیں اب رہا «نخل» اور «ورمان‏» کا «عطف فاكهة» پر تو ایسا ہے جیسے دوسری آیت میں فرمایا «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى‏» تو پہلے سب نمازوں کی محافظت کا حکم دیا «صلاة الوسطى‏» بھی ان میں آ گئی پھر «صلاة الوسطى‏» کو عطف کر کے دوبارہ بیان کر دینا اس سے غرض یہ ہے کہ اس کا اور زیادہ خیال رکھ، ایسے ہی یہاں بھی «نخل ورمان‏»، «فاكهة» میں آ گئے تھے مگر ان کی عمدگی کی وجہ سے دوبارہ ان کا ذکر کیا جیسے اس آیت میں فرمایا «ألم تر أن الله يسجد له من في السموات ومن في الأرض‏» پھر اس کے بعد فرمایا «وكثير من الناس وكثير حق عليه العذاب‏» حالانکہ یہ دونوں «من في السموات ومن في الأرض‏» میں آ گئے اوروں نے (مجاہد یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سوا) کہا «أفنان‏» کا معنی شاخیں ڈالیاں ہیں۔ «وجنى الجنتين دان» یعنی دونوں باغوں کا میوہ قریب ہو گا اور حسن بصری نے کہا «فبأى آلاء‏» یعنی اس کی کون کون سی نعمتوں کو اور قتادہ نے کہا «ربكما‏» میں جِن اور انسان کی طرف خطاب ہے اور ابودرداء نے کہا «كل يوم هو في شأن‏» کا یہ مطلب ہے کسی کا گناہ بخشتا ہے، کسی کی تکلیف دور کرتا ہے، کسی قوم کو بڑھاتا ہے کسی قوم کو گھٹاتا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «برزخ‏» سے آڑ مراد ہے۔ «لأنام الخلق نضاختان‏» خیر اور برکت سے یہاں رہتے ہیں۔ «ذو الجلال‏» بزرگی والا اوروں نے کہا۔ «مارج» ‏‏‏‏ خالص انگارا (جس میں دھواں نہ ہو) عرب لوگ کہتے ہیں «مرج الأمير رعيته» یعنی حاکم نے اپنی رعیت کا خیال چھوڑ دیا یا ایک کو دوسرے ستا رہا ہے۔ لفظ «مريج‏» جو سورۃ ق میں ہے۔ اس کا معنی گڈ مڈ ملا ہوا۔ «مرج‏ البحراين» یعنی دونوں دریا مل گئے ہیں یہ «مرجت دابتك» سے نکلا ہے یعنی تو نے اپنا جانور چھوڑ دیا اس طرح رہ کر ہم عنقریب تمہارا خاتمہ کریں گے یہاں فراغت کا معنی نہیں کیونکہ اللہ پاک کو کوئی چیز دوسری چیز کی طرف خیال کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے جو سب لوگوں میں مشہور ہے کوئی شخص بیکار ہوتا ہے اس کو فرصت ہوتی ہے لیکن ڈرانے کے لیے دوسرے سے کہتا ہے، اچھا میں تیرے لیے فراغت کروں گا یعنی وہ خوف جب ٹل جائے گا تو تجھ کو سزا دوں گا۔