صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِهِ: {وَظِلٍّ مَمْدُودٍ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور جنت کے درختوں کا بہت ہی لمبا سایہ ہو گا“۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: رُجَّتْ: زُلْزِلَتْ، بُسَّتْ: فُتَّتْ لُتَّتْ كَمَا يُلَتُّ السَّوِيقُ الْمَخْضُودُ الْمُوقَرُ حَمْلًا، وَيُقَالُ أَيْضًا: لَا شَوْكَ لَهُ، مَنْضُودٍ: الْمَوْزُ وَالْعُرُبُ الْمُحَبَّبَاتُ إِلَى أَزْوَاجِهِنَّ، ثُلَّةٌ: أُمَّةٌ، يَحْمُوم: دُخَانٌ أَسْوَدُ، يُصِرُّونَ: يُدِيمُونَ الْهِيمُ الْإِبِلُ الظِّمَاءُ، لَمُغْرَمُونَ: لَمَلُومُونَ مَدِينِينَ مُحَاسَبِينَ، رَوْحٌ: جَنَّةٌ وَرَخَاءٌ، وَرَيْحَانٌ: الرَّيْحَانُ الرِّزْقُ، وَنُنْشِئَكُمْ: فِيمَا لَا تَعْلَمُونَ فِي أَيِّ خَلْقٍ نَشَاءُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَفَكَّهُونَ: تَعْجَبُونَ، عُرُبًا: مُثَقَّلَةً وَاحِدُهَا عَرُوبٌ مِثْلُ صَبُورٍ وَصُبُرٍ يُسَمِّيهَا أَهْلُ مَكَّةَ الْعَرِبَةَ، وَأَهْلُ الْمَدِينَةِ الْغَنِجَةَ، وَأَهْلُ الْعِرَاقِ الشَّكِلَةَ، وَقَالَ: فِي خَافِضَةٌ لِقَوْمٍ إِلَى النَّارِ، وَرَافِعَةٌ: إِلَى الْجَنَّةِ، مَوْضُونَةٍ: مَنْسُوجَةٍ وَمِنْهُ وَضِينُ النَّاقَةِ وَالْكُوبُ لَا آذَانَ لَهُ وَلَا عُرْوَةَ، وَالْأَبَارِيقُ ذَوَاتُ الْآذَانِ، وَالْعُرَى، مَسْكُوبٍ: جَارٍ، وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ: بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ، مُتْرَفِينَ: مُمَتَّعِينَ، مَا تُمْنُونَ: مِنَ النُّطَفِ يَعْنِي هِيَ النُّطْفَةُ فِي أَرْحَامِ النِّسَاءِ، لِلْمُقْوِينَ: لِلْمُسَافِرِينَ وَالْقِيُّ الْقَفْرُ، بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ: بِمُحْكَمِ الْقُرْآنِ، وَيُقَالُ: بِمَسْقِطِ النُّجُومِ إِذَا سَقَطْنَ وَمَوَاقِعُ وَمَوْقِعٌ وَاحِدٌ، مُدْهِنُونَ: مُكَذِّبُونَ مِثْلُ، لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ فَسَلَامٌ لَكَ: أَيْ مُسَلَّمٌ لَكَ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ، وَأُلْغِيَتْ إِنَّ وَهُوَ مَعْنَاهَا كَمَا، تَقُولُ: أَنْتَ مُصَدَّقٌ مُسَافِرٌ، عَنْ قَلِيلٍ إِذَا كَانَ قَدْ، قَالَ: إِنِّي مُسَافِرٌ، عَنْ قَلِيلٍ وَقَدْ يَكُونُ كَالدُّعَاءِ لَهُ كَقَوْلِكَ فَسَقْيًا مِنَ الرِّجَالِ إِنْ رَفَعْتَ السَّلَامَ، فَهُوَ مِنَ الدُّعَاءِ، تُورُونَ: تَسْتَخْرِجُونَ أَوْرَيْتُ أَوْقَدْتُ، لَغْوًا: بَاطِلًا تَأْثِيمًا: كَذِبًا.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «رجت‏» کا معنی ہلائی جائے۔ «بست‏» چور چور کئے جائیں گے اور ستو کی طرح لت پت کر دیئے جائیں گے۔ «المخضود» بوجھ لدے ہوئے یا جن میں کانٹا نہ ہو۔ «منضود‏»، «موز» (کیلا)۔ «عربا» اپنے خاوند کی پیاری بیوی۔ «ثلة‏» امت گروہ۔ «حموم‏» کالا دھواں۔ «يصرون‏» ہٹ دھرمی کرتے، ہمیشہ کرتے تھے۔ «الهيم» پیاسے اونٹ۔ «لمغرمون‏» ٹوٹے میں آ گئے، ڈنڈ ہوا۔ «روح‏» بہشت، آرام، راحت۔ «ريحان‏» رزق، روزی۔ «وننشأكم‏ فيما لا تعلمون» یعنی جس صورت میں ہم چاہیں تم کو پیدا کریں۔ مجاہد کے سوا اوروں نے کہا «تفكهون‏» کا معنی «تعجبون» تعجب کرتے جائیں۔ «عربا‏ مثقلة» ‏‏‏‏ (یعنی ضمہ کے ساتھ) «عروب» کی جمع جیسے «صبور» کی جمع «صبر» آتی ہے ( «عروب» خوبصورت پیاری عورت) مکہ والے ایسی عورت کو «عربة» کہتے ہیں۔ اور مدینہ والے «غنجة» اور عراق والے «الشكلة‏» کہتے ہیں۔ «خافضة‏» ایک قوم کو نیچا دکھانے والی یعنی دوزخ میں لے جانے والی۔ «رافعة‏» ایک قوم کو بلند کرنے والے یعنی بہشت میں لے جانے والی۔ «موضونة‏» سونے سے بنے ہوئے، اسی سے نکلا ہے «وضين الناقة» یعنی اونٹنی کا زیر بند (تنگ)۔ «كوب» آبخورہ جس میں ٹونٹی اور کنڈا نہ ہو۔ ( «اكوب» جمع ہے) «ابريق» وہ کوزہ جس میں ٹونٹی کنڈہ ہو۔ «اباريق» اس کی جمع ہے۔ «مسكوب‏» بہتا ہوا، جاری۔ «وفرش مرفوعة‏» اونچے بچھونے یعنی ایک کے اوپر ایک تلے اوپر بچھائے گئے۔ «مترفين‏» کا معنی آسودہ، آرام پروردہ تھے۔ «ما تمنون‏» نطفہ جو عورتوں کے رحموں میں ڈالتے ہو۔ «للمقوين‏» مسافروں کے فائدے کے لیے یہ «قي» سے نکلا ہے «قي» کہتے ہیں بےآب و گیاہ میدان کو۔ «بمواقع النجوم‏» سے قرآن کی محکم آیتیں مراد ہیں بعضوں نے کہا تارے ڈوبنے کے مقامات۔ «واقع» جمع ہے، اس کا واحد «موقع» دونوں کا (جب «مضاف» ہوں) ایک ہی معنی ہے۔ «مدهنون‏» جھٹلانے والے جیسے اس آیت میں ہے «لو تدهن فيدهنون‏ فسلام لك‏ من أصحاب اليمين» کا یہ معنی ہے۔ «مسلم لك إنك من أصحاب اليمين» یعنی یہ بات مان لی گئی ہے چاہے کہ تو داہنے ہاتھ والوں میں سے ہے تو ان کا لفظ گرا دیا گیا مگر اس کا معنی قائم رکھا گیا اس کی مثال یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے میں اب تھوڑی دیر میں سفر کرنے والا ہوں اور تو اس سے کہے «أنت مصدق مسافر عن قليل» یہاں بھی «أن» محذوف ہے یعنی «أنت مصدق أنك مسافر عن قليل» کبھی سلام کا لفظ بطور دعا کے مستعمل ہوتا ہے اگر مرفوع ہو جیسے «فسقيا» نصب کے ساتھ دعا کے معنوں میں آتا ہے یعنی اللہ تجھ کو سیراب کرے۔ «تورون‏» سلگاتے ہو آگ نکالتے ہو «أوريت» سے یعنی میں نے سلگایا، لغو، باطل، جھوٹ۔ «تأثيما‏» جھوٹ، غلط۔
حدیث نمبر: 4881
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ، لَا يَقْطَعُهَا، وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَظِلٍّ مَمْدُودٍ سورة الواقعة آية 30".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ کہتے تھے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایک درخت طویل ہو گا (اتنا بڑا کہ) سوار اس کے سایہ میں سو سال تک چلے گا اور پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا اگر تمہارا جی چاہے تو اس آیت «وظل ممدود‏» کی قرآت کر لو۔
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 5  
´جنت کے درخت کا سایہ`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لا يَقْطَعُهَا " . . . .»
. . . اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو (۱۰۰) سال تک چلتا رہے تو بھی اس کو ختم نہ کرے گا . . . [صحيفه همام بن منبه: 5]

شرح حدیث:
مذکورہ حدیث میں جنت میں لگے اس درخت کا ذکر ہے کہ کوئی شخص سواری پر اس کے سائے میں سو (100) سال بھی چلتا رہے جب بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا۔
جنت کا تعلق اخروی جہان سے ہے، وہاں کا نظام، وہاں کا ماحول اور وہاں کے قوانین ہمارے اس زمین والے جہان سے بالکل مختلف ہیں، لہذا اس جہان کے قوانین کو اس جہان کے قوانین پر قیاس کرنا بالکل غلط ہے۔
جب کوئی آدمی اس کا انکار کرے کہ اتنا بڑا درخت اور اس کا اتنا لمبا سایہ کیسے ہو سکتا ہے؟
درحقیت یہ حدیث قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر ہے جس میں فرمایا:
«وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ» [الواقعة: 30]
اور لمبے پھیلے ہوئے سائے ہوں گے۔
اور جنت کی چوڑائی بیان کرتے ہوئے فرمایا:
«وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ» [آل عمران: 133]
اور جلدی کرو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف (دوڑو)، جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
«سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» [الحديد: 21]
دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی کشادگی آسمان و زمین کی کشادگی کی مانند ہے۔
تو جب جنت کی کشادگی آسمان و زمین کے برابر ہے تو پھر یہ بعید نہیں کہ اس جنت میں اتنا بڑا درخت ہو کہ جس کا سایہ سو (100) سال سواری دوڑانے کے بعد بھی ختم نہ ہو۔
یہی حدیث صحیح بخاری میں برقم (3252) موجود ہے، اور اس کے آخر میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«وَاقْرَؤُا إِنْ شِئْتُمْ وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ» [الواقعه: 30]
اور اگر چاہو تو پڑھ لو......، اور لمبے پھیلے ہوئے ساحے ہوں گے۔
حدیث کے سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم درحقیقت اس آیت کریمہ کی تفسیر فرما رہے ہیں کہ لمبے پھیلے ہوئے سایے ہوں گے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی لمبائی بیان کر دی، اور یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وظیفہ تھا کہ قرآن مجید کی تفسیر و تشریح کرتے اور اس کے مبہمات اور مجملات کی وضاحت فرماتے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
«وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ» [النحل: 44]
اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے کہ آپ اس کی وضاحت کر دیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم قرآن کے شارح اور مفسر ہیں۔ لہذا جیسا کہ قرآن مجید قطعی الثبوت ہے، ایسے ہی حدیث رسول علی صاحبہا الصلوة والسلام بھی قطعی الثبوت ہے، اور انکار حدیث کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 80   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4335  
´جنت کے احوال و صفات کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک درخت ہے، اس کے سائے میں سوار سو برس تک چلتا رہے گا لیکن وہ ختم نہ ہو گا، اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو: «وظل ممدود» جنت میں دراز اور لمبا سایہ ہے (سورة الواقعة: 3)۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4335]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
   جنت میں دھوپ نہیں ھو گی لیکن درختوں کا وجود بھی ایک نعمت ہے جس سے منظر خشگوار ہوتا ہے۔
جنت کا ایک ایک درخت اتنا بڑا ہو گا اور اس کی شاخوں کا پھیلا ؤں اس قدر ہو گا کہ دنیا کے لحاظ سے ہزاروں میل پہ محیط ہو گا۔
اس سے جنت کی وسعت کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4335   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4881  
4881. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ تک اس حدیث کو پہنچاتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جنت میں ایک اتنا بڑا درخت ہے جس کے سائے میں اگر سوار سو برس تک چلتا رہے تو بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ﴿وَظِلٍّۢ مَّمْدُودٍ﴾ اور لمبے لمبے سائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4881]
حدیث حاشیہ:
یہ سایہ سورج کا نہ ہوگا بلکہ خدا کے نور کا سایہ ہوگا بعض نے کہا خدا کے عرش کا سایہ ہوگا کیونکہ جنت میں سورج نہ ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4881   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4881  
4881. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ تک اس حدیث کو پہنچاتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جنت میں ایک اتنا بڑا درخت ہے جس کے سائے میں اگر سوار سو برس تک چلتا رہے تو بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ﴿وَظِلٍّۢ مَّمْدُودٍ﴾ اور لمبے لمبے سائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4881]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے:
بہترین عمدہ،تیار شدہ تیز رفتار گھوڑا بھی سوسال تک اسے طے نہیں کرسکے گا۔
(صحیح مسلم، الجنة و نعیمھا، حدیث: 7139(2828)
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا:
سوار اس کی شاخوں کے سائے میں سوسال چلتا رہےگا۔
۔
۔
یافرمایا۔
۔
۔
اس کے سائے میں سو سوار آسکیں گے۔
اس پر پتنگے سونے کے ہوں گے اور اس کا پھل بڑے مٹکوں کی طرح ہوگا۔
(جامع الترمذي، صفة الجنة، حدیث: 2541)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4881