صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ} :
باب: آیت کی تفسیر ”جو کھجوروں کے درخت تم نے کاٹے“۔
نَخْلَةٍ مَا لَمْ تَكُنْ عَجْوَةً أَوْ بَرْنِيَّةً.
‏‏‏‏ آیت میں «لينة» بمعنی «نخلة» ہے جس کا معنی کھجور ہے جب کہ وہ عجوہ یا برنی نہ ہو یعنی کھجور مراد ہیں۔
حدیث نمبر: 4884
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ سورة الحشر آية 5".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلا دیئے تھے اور انہیں کاٹ ڈالا تھا۔ یہ درخت مقام بویرہ میں تھے پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين‏» کہ جو کھجوروں کے درخت تم نے کاٹے یا انہیں ان کی جڑوں پر قائم رہنے دیا سو یہ دونوں اللہ ہی کے حکم کے موافق ہیں اور تاکہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2844  
´دشمن کی سر زمین کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو نضیر کے کھجور کا باغ جلا دیا، اور کاٹ ڈالا، اس باغ کا نام بویرہ تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة» یعنی تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پہ باقی رہنے دیا یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، اور اس لیے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2844]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
یہودیوں نے نبی اکرمﷺ سے معاہدہ کیا تھا کہ کفار مکہ کے خلاف مسلمانوں کی مدد کریں گے لیکن انہوں نے عہد شکنی کی اور قبیلہ بنو نضیر نے نبی اکرم ﷺ کو شہید کرنے کی سازش بھی کی۔
اس عہد شکنی کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ان پر لشکر کشی کی۔
وہ کچھ عرصہ اپنے قلعوں میں محصور رہے لیکن آخر جان بخشی کی صورت میں جلاوطنی پر آمادہ ہوگئے۔

(2)
اس محاصرے کے دوران میں مسلمانوں نے بنو نضیر کے کچھ درخت کاٹ ڈالے اور کچھ جلادیے تاکہ دشمنوں کی آڑ ختم ہو اور وہ اپنے باغوں کو اجڑتا دیکھ کر مقابلے کے لیے میدان میں آئیں۔

(3)
رسول اللہ ﷺ کے افعال اور صحابہ کے وہ افعال جو رسول اللہﷺکی اجازت سے کیےگئےہوں وہ شرعی طور پر جواز کی دلیل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2844   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1098  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نصیر کے کھجوروں کے درخت نذر آتش کروا دیئے اور کٹوا دیئے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1098»
تخریج:
«أخرجه البخاري، المغازي، باب حديث بني النضير...، حديث:4031، مسلم، الجهاد والسير، باب جواز قطع اشجار الكفار و تحريقها، حديث:1746.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ناگزیر جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلانا یا کٹوانا جائز ہے۔
مگر عام حالات میں بلا ضرورت انھیں کاٹنے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1098   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1552  
´دوران جنگ کفار و مشرکین کے گھر جلانے اور ویران کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ۱؎، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» (مسلمانو!)، (یہود بنی نضیر کے) کھجوروں کے درخت جو کاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور اپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظور تھا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے (الحشر: ۵)۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1552]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلوانا اور کٹوانا جائز ہے،
لیکن بلاضرورت عام حالات میں انہیں کاٹنے سے بچنا چاہئے۔

2؎:
یعنی جب اسلامی لشکر کے لیے کچھ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ درختوں کے جلانے اور مکانوں کے ویران کرنے کے سوا ان کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسا کرناجائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1552   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2615  
´دشمنوں کے کھیت اور باغات کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے کھجوروں کے باغات جلا دیے اور درختوں کو کاٹ ڈالا (یہ مقام بویرہ میں تھا) تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها» کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے، یا اپنی جڑوں پر انہیں قائم رہنے دیا، یہ سب اللہ کے حکم سے تھا (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2615]
فوائد ومسائل:
جنگی ضرورت اور مصلحت کے تحت آگ لگانا یا مکانات گرانا جائز ہے۔
محض فساد پھیلانے کی نیت سے جائز نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2615   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4884  
4884. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کی کھجوروں کے درخت جلا دیے تھے اور کچھ کاٹ ڈالے تھے۔ یہ درخت مقام بُویرہ میں تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی: جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹ دیا یا اسے اس کی جڑوں پر قائم رہنے دیا یہ دونوں کام اللہ کے حکم کے مطابق تھے تاکہ اللہ تعالٰی نافرمانوں کو ذلیل کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4884]
حدیث حاشیہ:
یہود مدینہ کی حد سے زیادہ شرارتوں اور غداریوں کی بنا پر ان کے خلاف ایسا سخت قدم اٹھایا گیا ورنہ عام طور پر مواقع جنگ میں ایسا کرنا مناسب نہیں ہے ہاں اگر امام ایسی ضرورت محسوس کرے تو اسلام میں اس کی بھی اجازت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4884   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4884  
4884. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کی کھجوروں کے درخت جلا دیے تھے اور کچھ کاٹ ڈالے تھے۔ یہ درخت مقام بُویرہ میں تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی: جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹ دیا یا اسے اس کی جڑوں پر قائم رہنے دیا یہ دونوں کام اللہ کے حکم کے مطابق تھے تاکہ اللہ تعالٰی نافرمانوں کو ذلیل کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4884]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے موقع پر درخت کاٹنے سے منع کیا تھا، مگر بنو نضیر کی مسلسل بد عہدیوں کی وجہ سے ان کا استحصال ضروری تھا، لہذا اس خاص موقع پر اللہ تعالیٰ نے درخت کاٹنے کی اجازت دی۔

واقعہ یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے گرد بنو نضیر کا ایک بہت ہی خوبصورت باغ تھا جسے بویرہ کہتے تھے۔
اس میں بہت سے کھجوروں کے درخت تھے۔
جب مسلمانوں نے بنونضیر کا محاصرہ کرنا چاہا تو انھوں نے باغ کو بطور ڈھال استعمال کیا، اس لیے جو درخت اس کام کے لیے رکاوٹ بن رہے تھے مسلمانوں نے انھیں کاٹ ڈالا اورجہاں زیادہ گنجان تھے وہاں انھیں آگ لگا کر محاصرے کے لیے راہ صاف کرلی۔
جب آگ کے شعلوں نے اس باغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو اس وقت حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ شعر پڑھا:
بنو لئوی کے سرداروں (مشرکینِ مکہ)
پر یہ بات گراں گزری کہ بویرہ کا باغ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آکر جل رہا ہے۔

جب راستہ صاف کرنے کے لیے مسلمانوں نے یہ درخت کاٹے اور انھیں آگ لگائی تو مخالفین نے ایک شور برپا کردیا کہ دیکھو مسلمان ان درختوں کو کاٹ کر فساد فی الارض کا ارتکاب کررہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا۔
یہ حکم قرآن کریم میں کہیں موجود نہیں ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی جسے عموماً وحی خفی کہا جاتا ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی تخریبی کار روائی جنگ کے لیے ناگزیر ہوتو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آئے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4884