صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلُهُ: {وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور دوسروں کے لیے بھی ان میں سے (آپ کو بھیجا) جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے ہیں“۔
وَقَرَأَ عُمَرُ فَامْضُوا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ.
‏‏‏‏ عمر رضی اللہ عنہ نے «فامضوا إلى ذكر الله» پڑھا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف چلو۔
حدیث نمبر: 4897
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْجُمُعَةِ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلَاثًا، وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ، ثُمَّ قَالَ:" لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ".
مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا، ان سے ثور نے، ان سے ابوالغیث سالم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورۃ الجمعہ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں «وآخرين منهم لما يلحقوا بهم‏» الایۃ اور دوسروں کے لیے بھی جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہادی اور معلم ہیں) بیان کیا میں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ دوسرے کون لوگ ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آخر یہی سوال تین مرتبہ کیا۔ مجلس میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اگر ایمان ثریا پر بھی ہو گا تب بھی ان لوگوں (یعنی فارس والوں) میں سے اس تک پہنچ جائیں گے یا یوں فرمایا کہ ایک آدمی ان لوگوں میں سے اس تک پہنچ جائے گا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3260  
´سورۃ محمد سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن یہ آیت «وإن تتولوا يستبدل قوما غيركم ثم لا يكونوا أمثالكم» اے عرب کے لوگو! تم (ایمان و جہاد سے) پھر جاؤ گے تو تمہارے بدلے اللہ دوسری قوم کو لا کر کھڑا کرے گا، وہ تمہارے جیسے نہیں (بلکہ تم سے اچھے) ہوں گے (محمد: ۳۸)، تلاوت فرمائی، صحابہ نے کہا: ہمارے بدلے کون لوگ لائے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان کے کندھے پر ہاتھ مارا (رکھا) پھر فرمایا: یہ اور اس کی قوم، یہ اور اس کی قوم۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3260]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے عرب کے لوگو! تم (ایمان وجہاد سے) پھر جاؤ گے تو تمہارے بدلے اللہ دوسری قوم کو لا کرکھڑا کرے گا،
وہ تمہارے جیسے نہیں (بلکہ تم سے اچھے) ہوں گے (محمد: 38)

نوٹ:
(سند میں ایک راوی مبہم ہے،
لیکن آنے والی حدیث کی متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3260   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4897  
4897. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: سورہ جمعہ نازل ہوئی تو ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے یہ آیت پڑھی: اور انہی میں سے کچھ دوسرے لوگ ہیں جو ابھی تک ان سے نہیں ملے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس آیت کا مصداق کون لوگ ہیں؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے تین مرتبہ یہی سوال کیا، اس وقت ہم لوگوں میں حضرت سلمان فارسی ؓ بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک ان پر رکھ کر فرمایا: اگر ایمان ثریا ستارے کی بلندی پر بھی ہوتا تو (ان میں سے) کئی لوگ وہاں تک پہنچ جاتے اور ایمان کو وہاں سے حاصل کرتے یا (فرمایا:) ان میں سے ایک آدمی وہاں تک پہنچ جاتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4897]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت کئی آدمی سے بغیر شک کے مذکور ہے۔
قرطبی نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔
بہت سے حدیث کے حافظ اور امام ملک فارس میں پیدا ہوئے۔
میں کہتا ہوں ان لوگوں سے صرف حضرت امام بخاری اور امام مسلم اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ ہیں۔
یہ سب حدیث کے امام ملک فارس کے تھے اور رجل من ھٰولاء کی اگر روایت صحیح ہو تو اس سے حضرت امام بخاری مراد ہیں علم حدیث باسناد صحیح متصلہ اسی مرد کی ہمت مردانہ سے اب تک باقی ہے اور حنفیوں نے جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اس سے لیا ہے تو ہم کو حضرت امام ابو حنیفہ کی فضیلت اور بزرگی میں اختلاف نہیں ہے مگر ان کی اصل ملک فارس سے نہ تھی بلکہ کابل سے تھی اور کابل بلاد فارس میں داخل نہیں، اس لئے وہ اس حدیث کے مصداق نہیں ہو سکتے۔
علاوہ اس کے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مدت العمر فقہ اور اجتہاد میں مصروف رہے اور علم حدیث کی طرف ان کی توجہ بالکل کم رہی، اسی لئے وہ حدیث کے امام نہیں گنے جاتے اور نہ ائمہ حدیث جیسے امام بخاری وامام مسلم وغیرہ نے اپنی کتابوں میں ان سے روایت کی ہے بلکہ محمد بن نصر مروزی محدث کہتے ہیں حضرت امام ابو حنیفہ کی بضاعت حدیث میں بہت تھوڑی تھی اور خطیب نے کہا کہ امام ابو حنیفہ نے صرف پچاس مرفوع حدیثیں روایت کی ہیں، البتہ مجتہد امام مالک اورامام احمد بن حنبل اوراسحاق بن راہویہ اور اوزاعی اور سفیان ثوری اور حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہم ایسے کامل گزرے ہیں کہ فقہ اور حدیث میں بیک وقت امام تھے اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو اور ان کو درجات عالیہ عطا فرمائے۔
آمین (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4897