صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ: {وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب کبھی انہوں نے اموال تجارت دیکھا“ آخر تک۔
حدیث نمبر: 4899
حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، وَعَنْ أبي سفيان عن جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" أَقْبَلَت غِيرٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَثَارَ النَّاسُ إِلَّا اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا سورة الجمعة آية 11".
مجھ سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے حصین نے بیان کیا، ان سے سالم بن ابی الجعد نے اور ابوسفیان نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے بیان کیا کہ جمعہ کے دن سامان تجارت لیے ہوئے اونٹ آئے ہم اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے انہیں دیکھ کر سوائے بارہ آدمی کے سب لوگ ادھر ہی دوڑ پڑے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها‏» الایۃ یعنی اور بعض لوگوں نے جب کبھی ایک سودے یا تماشے کی چیز کو دیکھا تو اس کی طرف دوڑے ہوئے پھیل گئے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3311  
´سورۃ الجمعہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اس دوران کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مدینہ کا (تجارتی) قافلہ آ گیا، (یہ سن کر) صحابہ بھی (خطبہ چھوڑ کر) ادھر ہی لپک لیے، صرف بارہ آدمی باقی رہ گئے جن میں ابوبکر و عمر رضی الله عنہما بھی تھے، اسی موقع پر آیت «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما» اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشہ نظر آ جائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے (۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3311]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشہ نظر آ جائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ(ﷺ) کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں،
آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے (الجمعة: 11)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3311   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4899  
4899. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن ایک تجارتی قافلہ سامان لے کر آیا جبکہ ہم اس وقت نبی ﷺ کے ہمراہ (خطبہ جمعہ میں) تھے۔ انہیں دیکھ کر بارہ آدمیوں کے علاوہ سب لوگ ادھر دوڑ پڑے۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: جب لوگوں نے سامان تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو سب اسی طرف دوڑ پڑے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4899]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز میں مصروف تھے کہ شام کے علاقے سے ایک تجارتی قافلہ لے آیا۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2058)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان بارہ آدمیوں میں سے تھے جو آپ کا خطبہ سننے میں مصروف رہے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3311)
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خطبہ سننے والوں میں باقی رہے۔
(صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 1999۔
(863)

ان آیات میں مسلمانوں پر اظہار ناراضی کیا گیا ہے کہ یہ قافلے والےکوئی تمھارے رازق تو نہیں تھے کہ تم خطبہ چھوڑ کر اس کے پیچھے بھاگ نکلے۔
رزق کے اسباب مہیا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا آئندہ تمھیں ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔

ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کو کھڑے ہو کر خطبہ دینا چاہیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زندگی بھر یہی معمول رہا چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے پھر بیٹھ جا تے، پھر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے جو تمھیں یہ بتائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر خطبہ دیا اس نے جھوٹ بولا۔
(صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 1996۔
(862)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4899