صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِهِ: {إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ} إِلَى: {لَكَاذِبُونَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”جب منافق آپ کے پاس آتے تو کہتے ہیں کہ بیشک ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں“ «لَكَاذِبُونَ» تک۔
n
‏‏‏‏ .
حدیث نمبر: 4900
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كُنْتُ فِي غَزَاةٍ، فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، يَقُولُ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ، حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ وَلَئِنْ رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِهِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمِّي أَوْ لِعُمَرَ، فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَانِي، فَحَدَّثْتُهُ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَأَصْحَابِهِ، فَحَلَفُوا مَا قَالُوا، فَكَذَّبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُ، فَأَصَابَنِي هَمٌّ لَمْ يُصِبْنِي مِثْلُهُ قَطُّ، فَجَلَسْتُ فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ لِي عَمِّي: مَا أَرَدْتَ إِلَى أَنْ كَذَّبَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَقَتَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1، فَبَعَثَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ يَا زَيْدُ".
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا، ان سے اسحاق نے اور ان سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ایک غزوہ (غزوہ تبوک) میں تھا اور میں نے (منافقوں کے سردار) عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا کہ جو لوگ (مہاجرین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں ان پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو جائیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا اب اگر ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے اس کا ذکر اپنے چچا (سعد بن عبادہ انصاری) سے کیا یا عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا۔ (راوی کو شک تھا) انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں نے تمام باتیں آپ کو سنا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا۔ انہوں نے قسم کھا لی کہا کہ انہوں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو جھوٹا سمجھا اور عبداللہ کو سچا سمجھا۔ مجھے اس کا اتنا صدمہ ہوا کہ ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔ پھر میں گھر میں بیٹھ رہا۔ میرے چچا نے کہا کہ میرا خیال نہیں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری تکذیب کریں گے اور تم پر ناراض ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل کی «إذا جاءك المنافقون‏» جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا اور اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ اے زید! اللہ تعالیٰ نے تم کو سچا کر دیا ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3314  
´سورۃ منافقین سے بعض آیات کی تفسیر۔`
حکم بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن کعب قرظی کو چالیس سال سے زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت کرتے سن رہا ہوں کہ غزوہ تبوک میں عبداللہ بن ابی نے کہا: اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والے لوگ ذلت والوں کو مدینہ سے ضرور نکال باہر کریں گے، وہ کہتے ہیں: میں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، اور آپ کو یہ بات بتا دی (جب اس سے بازپرس ہوئی) تو وہ قسم کھا گیا کہ اس نے تو ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں ہے، میری قوم نے مجھے ملامت کی، لوگوں نے کہا: تجھے اس طرح کی (جھوٹ) بات کہنے سے کیا ملا؟ میں گھر آ گیا، رنج و غم میں ڈوبا ہوا لیٹ گیا، پھر نب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3314]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ان لوگوں پر خرچ نہ کرو،
جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں (المنافقون: 7)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3314   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4900  
4900. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے ایک لڑائی کے موقع پر عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سنا: جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہیں، ان پر تم خرچ نہ کرو تاکہ وہ خود ہی آپ ﷺ کو چھوڑ کر تتر بتر ہو جائیں۔ (اس نے یہ بھی کہا کہ) اب ہم جب مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے ان باتوں کا ذکر اپنے چچا یا سیدنا عمر ؓ سے کر دیا۔ ان حضرات نے یہ باتیں نبی ﷺ کو بتا دیں۔ آپ نے مجھے بلایا تو میں نے یہ باتیں آپ سے کہہ دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا، انہوں نے قسم اٹھائی کہ ہم نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی تھی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جھوٹا سمجھا اور اسے سچا خیال کیا۔ مجھے اس بات سے اتنا دکھ ہوا کہ اتنا کسی اور بات سے نہیں ہوا تھا۔ میں اپنے گھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4900]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے نسائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک سے واپسی پر پیش آیا۔
(السنن الکبری للنسائي: 492/6/8۔
رقم: 11597)

لیکن اہل مغازی کا رجحان ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بنی مصطلق میں ہوا، اس کی تائید آئندہ آنے والی حدیث جابر سے بھی ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 821/8)

واضح رہے کہ شہادت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے:
ایک وہ اصل بات جس کی شہادت دی جائے، دوسرے اس بات کے متعلق شہادت دینے کا عقیدہ ہے۔
اب اگر بات بجائے خود بھی سچی ہو شہادت دینے والا کا عقیدہ بھی وہی ہو جسے زبان سے بیان کررہا ہے تو ہر لحاظ سے وہ سچا ہوگا جیسا کہ زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عبداللہ بن ابی کے متعلق شہادت تھی اور اگر بات اپنی جگہ جھوٹی ہو لیکن شہادت دینے والا اس کے حق ہونے کا عقیدہ رکھتا ہو تو ہم ایک لحاظ سے اسے سچا کہیں گے کیونکہ وہ اپنا عقیدہ بیان کرنے میں صادق ہے اور دوسرے لحاظ سے اسے جھوٹا کہیں گے کیونکہ جس بات کی وہ شہادت دے رہاہے وہ بجائے خود غلط ہے۔
اس کے برعکس اگر بات اپنی جگہ سچی ہو لیکن شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اس کےخلاف ہو جیسا کہ منافقین کی شہادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان ہوئی ہے تو اس لحاظ سے اسے جھوٹا کہیں گے کہ اس کا اپنا عقیدہ وہ نہیں جس کا وہ زبان سے اظہار کررہا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کو جھوٹا قرار دیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4900