صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
3M. بَابُ: {وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ يَحْسِبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! تو ان کو دیکھتا ہے تو تجھے ان کے جسم حیران کرتے ہیں، جب وہ باتیں کرتے ہیں تو تو ان کی بات سنتا ہے گویا وہ بہت بڑی لکڑی کے کھمبے ہیں جن کے ساتھ لوگ تکیہ لگاتے ہیں، ہر ایک زور دار آواز کو اپنے ہی برخلاف جانتے ہیں پس تم اے نبی! ان دشمنوں سے بچتے رہو، ان پر اللہ کی مار ہو کہاں کو بہکے جاتے ہیں“۔
حدیث نمبر: 4903
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ أَصَابَ النَّاسَ فِيهِ شِدَّةٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ لِأَصْحَابِهِ:" لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ، وَقَالَ: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ، فَسَأَلَهُ، فَاجْتَهَدَ يَمِينَهُ مَا فَعَلَ، قَالُوا: كَذَبَ زَيْدٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِمَّا قَالُوا شِدَّةٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقِي فِي إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1، فَدَعَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَسْتَغْفِرَ لَهُمْ، فَلَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَقَوْلُهُ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ سورة المنافقون آية 4، قَالَ:" كَانُوا رِجَالًا أَجْمَلَ شَيْءٍ".
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر (غزوہ تبوک یا بنی مصطلق) میں تھے جس میں لوگوں پر بڑے تنگ اوقات آئے تھے۔ عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں ان پر کچھ خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے منتشر ہو جائیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم اب مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی اس گفتگو کی اطلاع دی تو آپ نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو بلا کر پوچھا۔ اس نے بڑی قسمیں کھا کر کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ لوگوں نے کہا کہ زید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھوٹ بولا ہے۔ لوگوں کی اس طرح کی باتوں سے میں بڑا رنجیدہ ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق فرمائی اور یہ آیت نازل ہوئی «إذا جاءك المنافقون‏» الخ یعنی جب آپ کے پاس منافق آئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا تاکہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں لیکن انہوں نے اپنے سر پھیر لیے۔ زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «خشب مسندة‏» گویا وہ بہت بڑے لکڑی کے کھمبے ہیں (ان کے متعلق اس لیے کہا گیا کہ) وہ بڑے خوبصورت اور ڈیل ڈول معقول مگر دل میں منافق تھے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4903  
4903. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے جس میں لوگوں کو بہت شدت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سفر میں عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا: جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہیں، ان پر خرچ مت کیا کرو تا کہ وہ خود ان کے پاس سے منتشر ہو جائیں اور اس نے یہ بھی کہا: یقینا اگر ہم مدینے لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا ان ذلیل لوگوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو اس گفتگو کی اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر پوچھا تو اس نے بڑی بڑی قسمیں کھا کر کہا: میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ لوگوں نے کہا: زید بن ارقم نے رسول اللہ ﷺ سے غلط بیانی کی ہے۔ مجھے ان کی اس بات سے بہت تکلیف پہنچی یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے میری تصدیق اتار دی اور یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ﴾ آخر تک۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4903]
حدیث حاشیہ:

رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ملعون بہت ہٹا کٹا، تندرست، خوش شکل اور چرب زبان آدمی تھا۔
اس کے بہت سے ساتھی اسی شان و شوکت کے مالک تھے۔
یہ سب مدینہ طیبہ میں صاحب حیثیت قسم کے لوگ تھے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے تو دیواروں سے تکیہ لگا کر بیٹھ جاتے اور بڑی لچھے دار باتیں کرتے۔
ان کے چہرے مہرے دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کو ئی شخص یہ گمان تک نہ کرسکتا تھا کہ بستی کے معززین اپنے کردار و اخلاق کے لحاظ سے اتنے ذلیل، گھٹیا اور گندے ہوں گے جیسا کہ اس سورت اور حدیث میں تصویر کشی کی گئی ہے۔

انھیں لکڑی سے تشبیہ دے کر یہ بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ اخلاق کی روح سے بالکل خالی ہیں جو انسانیت کا اصل جوہر ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4903