صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
4. بَابُ قَوْلِهِ: {وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے لیے استغفار فرما دیں تو وہ اپنا سر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھیں گے کہ تکبر کرتے ہوئے وہ کس قدر بےرخی برت رہے ہیں“۔
حَرَّكُوا اسْتَهْزَءُوا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُقْرَأُ بِالتَّخْفِيفِ مِنْ لَوَيْتُ.
‏‏‏‏ «لودا» کا معنی یہ ہے کہ اپنے سر ہنسی، ٹھٹھے کی راہ سے ہلانے لگے۔ بعضوں نے «لودا» پر تخفیف واؤ «لويت» سے پڑھا ہے یعنی سر پھیر لیا۔
حدیث نمبر: 4904
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ:" كُنْتُ مَعَ عَمِّي، فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ ابْنَ سَلُولَ، يَقُولُ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا، وَلَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمِّي، فَذَكَرَ عَمِّي لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَانِي، فَحَدَّثْتُهُ، فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَأَصْحَابِهِ، فَحَلَفُوا مَا قَالُوا، وَكَذَّبَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُمْ، فَأَصَابَنِي غُمٌّ لَمْ يُصِبْنِي مِثْلُهُ قَطُّ، فَجَلَسْتُ فِي بَيْتِي، وَقَالَ عَمِّي: مَا أَرَدْتَ إِلَى أَنْ كَذَّبَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَقَتَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1، قَالُوا: نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ، وَأَرْسَلَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهَا، وَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے اپنے چچا کے ساتھ تھا میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کہتے سنا کہ جو لوگ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ وہ منتشر ہو جائیں اور اگر اب ہم مدینہ واپس لوٹیں گے تو ہم میں سے جو عزت والے ہیں ان ذلیلوں کو نکال باہر کر دیں گے۔ میں نے اس کا ذکر اپنے چچا سے کیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کی تصدیق کر دی تو مجھے اس کا اتنا افسوس ہوا کہ پہلے کبھی کسی بات پر نہ ہوا ہو گا، میں غم سے اپنے گھر میں بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے کہا کہ تمہارا کیا ایسا خیال تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جھٹلایا اور تم پر خفا ہوئے ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «إذا جاءك المنافقون قالوا نشهد إنك لرسول الله‏» جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ بیشک اللہ کے رسول ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوا کر اس آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تصدیق نازل کر دی ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3314  
´سورۃ منافقین سے بعض آیات کی تفسیر۔`
حکم بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن کعب قرظی کو چالیس سال سے زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت کرتے سن رہا ہوں کہ غزوہ تبوک میں عبداللہ بن ابی نے کہا: اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والے لوگ ذلت والوں کو مدینہ سے ضرور نکال باہر کریں گے، وہ کہتے ہیں: میں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، اور آپ کو یہ بات بتا دی (جب اس سے بازپرس ہوئی) تو وہ قسم کھا گیا کہ اس نے تو ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں ہے، میری قوم نے مجھے ملامت کی، لوگوں نے کہا: تجھے اس طرح کی (جھوٹ) بات کہنے سے کیا ملا؟ میں گھر آ گیا، رنج و غم میں ڈوبا ہوا لیٹ گیا، پھر نب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3314]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ان لوگوں پر خرچ نہ کرو،
جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں (المنافقون: 7)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3314   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4904  
4904. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے چچا کے ہمراہ تھا، اچانک میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سنا: ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہین حتی کہ وہ آپ سے منتشر ہو جائیں اور یقینا اگر ہم مدینے لوٹ کر گئے تو جو عزت والا ہو گا وہ ذلیل کو وہاں سے نکال دے گا۔ میں نے اپنے چچا سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے نبی ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا اور پوچھا تو انہوں نے حلفا کہا: ہم نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں، نبی ﷺ نے مجھے جھوٹا خیال اور انہیں سچا کہا۔ اس سے مجھے سخت غم لاحق ہوا، اس جیسا غم مجھے پہلے کبھی لاحق نہیں ہوا تھا۔ میں اپنے گھر بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے مجھ سے کہا: تو نے کیا کردار انجام دیا ہے کہ نبی ﷺ نے تجھے جھٹلا دیا ہے اور تجھ سے ناراض ہو گئے ہیں؟ پھر اللہ تعالٰی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4904]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نہیں تھے، دلوں کا حال صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
عبداللہ بن ابی نے قسمیں کھا کھا کر اپنی برات ظاہر کی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی باتوں کا یقین کر لیا بعد وحی الٰہی نے عبداللہ بن ابی کا جھوٹ ظاہر فرمایا اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کے بیان کی تصدیق فرمائی جس سے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کا دل مطمئن ہو گیا اور منافقین کا سورۃ منافقین میں سارا پول کھول دیا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4904   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4904  
4904. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے چچا کے ہمراہ تھا، اچانک میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سنا: ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہین حتی کہ وہ آپ سے منتشر ہو جائیں اور یقینا اگر ہم مدینے لوٹ کر گئے تو جو عزت والا ہو گا وہ ذلیل کو وہاں سے نکال دے گا۔ میں نے اپنے چچا سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے نبی ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا اور پوچھا تو انہوں نے حلفا کہا: ہم نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں، نبی ﷺ نے مجھے جھوٹا خیال اور انہیں سچا کہا۔ اس سے مجھے سخت غم لاحق ہوا، اس جیسا غم مجھے پہلے کبھی لاحق نہیں ہوا تھا۔ میں اپنے گھر بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے مجھ سے کہا: تو نے کیا کردار انجام دیا ہے کہ نبی ﷺ نے تجھے جھٹلا دیا ہے اور تجھ سے ناراض ہو گئے ہیں؟ پھر اللہ تعالٰی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4904]
حدیث حاشیہ:

عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی اعتقادی نفاق کا شکار تھے جس کی درج ذیل چھ قسمیں ہیں:
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انھیں انتہائی بغض تھا۔
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بھی وہ خوش نہیں تھے۔
۔
وہ دن رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے تھے۔
۔
ان تعلیمات کی بھی تکذیب کرتے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کرآئے تھے۔
۔
دین اسلام کی مدد کو انتہائی ناپسند خیال کرتے تھے۔
۔
دین اسلام کو نیچا دیکھنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔
۔
ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے:
اورجب تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے،حالانکہ وہ کفر لیے ہوئے ہی آئے تھے اور اسی کفر کے ساتھ ہی واپس چلے گئے۔
اور جو کچھ یہ چھپارہے ہیں اسے اللہ خوب جانتاہے۔
(المائدة: 61/5)
ان لوگوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا مقصد حصول ہدایت نہیں بلکہ دھوکا دہی ہوتا تھا ایسی حاضری سے انھیں فائدہ بھی کیا ہو سکتا تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4904