صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ: {وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا} :
باب: آیت کی تفسیر ”سو حمل والیوں کی عدت ان کے بچے کا پیدا ہو جانا ہے اور جو کوئی اللہ سے ڈرے اللہ اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا“۔
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ وَاحِدُهَا ذَاتُ حَمْلٍ.
‏‏‏‏ اور «أولات الأحمال» سے مراد «ذات حمل» ہے جس کے معنی حمل والی عورت ہے۔
حدیث نمبر: 4909
حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ جَالِسٌ عِنْدَهُ، فَقَالَ: أَفْتِنِي فِي امْرَأَةٍ وَلَدَتْ بَعْدَ زَوْجِهَا بِأَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: آخِرُ الْأَجَلَيْنِ، قُلْتُ: أَنَا وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ سورة الطلاق آية 4، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ، فَأَرْسَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ غُلَامَهُ كُرَيْبًا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ يَسْأَلُهَا، فَقَالَتْ: قُتِلَ زَوْجُ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةِ وَهِيَ حُبْلَى، فَوَضَعَتْ بَعْدَ مَوْتِهِ بِأَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فَخُطِبَتْ، فَأَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَبُو السَّنَابِلِ فِيمَنْ خَطَبَهَا،
ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آنے والے نے پوچھا کہ آپ مجھے اس عورت کے متعلق مسئلہ بتائیے جس نے اپنے شوہر کی وفات کے چار مہینے بعد بچہ جنا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جس کا خاوند فوت ہو وہ عدت کی دو مدتوں میں جو مدت لمبی ہو اس کی رعایت کرے۔ (ابوسلمہ نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا کہ (قرآن مجید میں تو ان کی عدت کا یہ حکم ہے) حمل والیوں کی عدت ان کے حمل کا پیدا ہو جانا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی اس مسئلہ میں اپنے بھتیجے کے ساتھ ہوں۔ ان کی مراد ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے تھی آخر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام کریب کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا یہی مسئلہ پوچھنے کے لیے۔ ام المؤمنین نے بتایا کہ سبیعہ اسلمیہ کے شوہر (سعد بن خولہ رضی اللہ عنہما) شہید کر دیئے گئے تھے وہ اس وقت حاملہ تھیں شوہر کی موت کے چالیس دن بعد ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا پھر ان کے پاس نکاح کا پیغام پہنچا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح کر دیا۔ ابوالسنابل بھی ان کے پاس پیغام نکاح بھیجنے والوں میں سے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4909  
4909. حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک شخص حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا جبکہ اس وقت حضرت ابوہریرہ ؓ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آنے والے نے مسئلہ پوچھا کہ آپ مجھے اس عورت کے متعلق بتائیے جس نے اپنے شوہر کی وفات کے چالیس راتیں بعد بچہ جنم دیا ہو؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اس کی عدت دونوں عدتوں میں دور تر، یعنی طویل تر عدت ہے۔ میں نے کہا: حمل والی عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: میں اپنے بھتیجے، (ابو سلمہ) کے ساتھ ہوں۔ آخر حضرت ابن عباس ؓ نے اپنے غلام کریب کو ام المومنین حضرت ام سلمہ‬ ؓ ک‬ی خدمت میں یہ مسئلہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا، ام المومنین نے بتایا کہ سبیعہ اسلمیہ‬ ؓ ک‬ے شوہر شہید کر دیے گئے تھے جبکہ وہ اس وقت حاملہ تھیں۔ شوہر کی وفات کے چالیس راتوں بعد اس نے بچہ جنم دیا، پھر ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4909]
حدیث حاشیہ:
اس بارے میں صحیح مسئلہ وہی ہے جو آیت میں مذکور ہے یعنی حمل والی عورتیں مطلقہ ہوں تو ان کی عدت وضع حمل ہے۔
بچہ پیدا ہونے پر وہ چاہیں تو نکاح ثانی کر سکتی ہیں خواہ بچہ کم سے کم مدت میں پیدا ہو جائے یا دیر بہر حال فتویٰ صحیح یہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4909   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4909  
4909. حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک شخص حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا جبکہ اس وقت حضرت ابوہریرہ ؓ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آنے والے نے مسئلہ پوچھا کہ آپ مجھے اس عورت کے متعلق بتائیے جس نے اپنے شوہر کی وفات کے چالیس راتیں بعد بچہ جنم دیا ہو؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اس کی عدت دونوں عدتوں میں دور تر، یعنی طویل تر عدت ہے۔ میں نے کہا: حمل والی عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: میں اپنے بھتیجے، (ابو سلمہ) کے ساتھ ہوں۔ آخر حضرت ابن عباس ؓ نے اپنے غلام کریب کو ام المومنین حضرت ام سلمہ‬ ؓ ک‬ی خدمت میں یہ مسئلہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا، ام المومنین نے بتایا کہ سبیعہ اسلمیہ‬ ؓ ک‬ے شوہر شہید کر دیے گئے تھے جبکہ وہ اس وقت حاملہ تھیں۔ شوہر کی وفات کے چالیس راتوں بعد اس نے بچہ جنم دیا، پھر ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4909]
حدیث حاشیہ:

عورت مطلقہ ہو یا بیوہ اگر وہ حمل سے ہے تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔
ہمارے ہاں جہالت کی وجہ سے یہ مسئلہ مشہور ہے کہ حاملہ کی طلاق نافذ نہیں ہوتی، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں حاملہ عورت کی عدت بیان کی ہے۔
اگر اسے طلاق دینا نا جائز ہے۔
یا اس کی طلاق نافذ نہیں ہوتی تو عدت بیان کرنے کا کیا مطلب، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب طلاق دینے کا طریقہ بتایا تو اس میں صراحت ہے کہ بیوی کو طلاق حالت طہر میں دو یا حالت حمل میں اسے فارغ کرو۔
(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3659(1471)

بہرحال دوران حمل میں دی گئی طلاق بھی نافذ العمل ہے اور اس کی عدت وضع حمل ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4909