صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے اسے آپ اپنے لیے کیوں حرام قرار دے رہے ہیں، محض اپنی بیویوں کی خوشی حاصل کرنے کے لیے حالانکہ یہ آپ کے لیے زیبا نہیں ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑی ہی رحمت کرنے والا ہے“۔
حدیث نمبر: 4912
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْرَبُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَيَمْكُثُ عِنْدَهَا، فَوَاطَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ عَلَى أَيَّتُنَا دَخَلَ عَلَيْهَا، فَلْتَقُلْ لَهُ: أَكَلْتَ مَغَافِيرَ إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ؟ قَالَ:" لَا، وَلَكِنِّي كُنْتُ أَشْرَبُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَلَنْ أَعُودَ لَهُ، وَقَدْ حَلَفْتُ لَا تُخْبِرِي بِذَلِكَ أَحَدًا".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہیں عطاء نے، انہیں عبید بن عمیر اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے گھر میں شہد پیتے اور وہاں ٹھہرتے تھے پھر میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایسے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (زینب کے یہاں سے شہد پی کر آنے کے بعد) داخل ہوں تو وہ کہے کہ کیا آپ نے پیاز کھائی ہے۔ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو منصوبہ بندی کے تحت یہی کہا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدبو کو بہت ناپسند فرماتے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے مغافیر نہیں کھائی ہے البتہ زینب بنت جحش کے یہاں سے شہد پیا تھا لیکن اب اسے بھی ہرگز نہیں پیوں گا۔ میں نے اس کی قسم کھا لی ہے لیکن تم کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4912  
4912. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ حضرت زینب بنت حجش‬ ؓ ک‬ے ہاں شہد پیتے اور ان کے پاس ٹھہرتے تھے، چنانچہ میں نے اور حضرت حفصہ‬ ؓ ن‬ے باہمی اتفاق سے طے کر لیا کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں سے جس کے پاس بھی آئیں تو وہ کہے کہ آپ نے مغافیر کھائی ہے کیونکہ میں آپ سے مغافیر کی بو محسوس کرتی ہوں۔ (چنانچہ جب آپ تشریف لائے تو منصوبے کے مطابق یہی کہا گیا۔) آپ نے فرمایا: ایسا نہیں ہے، لیکن میں نے زینب بنت حجش کے ہاں سے شہد پیا تھا، اب نہیں پیوں گا۔ میں نے اس کی قسم اٹھا لی ہے لیکن تم نے اس کا کسی سے ذکر نہیں کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4912]
حدیث حاشیہ:
اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
مغافیر ایک بو دار گوند ہےجو ایک درخت سےجھڑتا ہے۔
تشریح:
آنحضرت ﷺ بڑے لطیف مزاج اورنفاست پسند تھے آپ کو نفرت تھی کہ آپ کےجسم یا کپڑوں سے کسی قسم کی بری بو آئے ہمیشہ خوشبو کوپسند فرماتےتھے اورخوشبو کا استعمال رکھتے تھے۔
جدھر آپ گزرتے جاتے وہاں در و دیوار معطر ہو جاتے۔
حضرت عائشہ ؓ نے یہ صلاح اس لیے کی کہ آپ حضرت زینب ؓ کے پاس جانا وہاں ٹھہرے رہنا کم کر دیں۔
اسی واقعہ پرآیت ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ﴾ (الترحیم: 1)
نازل ہوئیں اورقسموں کےتوڑنے اورکفارہ ادا کرنے کا حکم ہوا۔
اس واقعہ میں صداقت محمدی کی بڑی دلیل ہے، اگرخدا نخواستہ آپ اللہ کےسچے نہ ہوتے تو اس ذاتی واقعہ کو اس طرح اظہار میں نہ لاتے بلکہ پوشیدہ رکھ چھوڑتے، برخلاف اس کےاللہ پاک نے بذریعہ وحی اسے قرآن شریف میں نازل فرما دیا جوقیامت تک اس کمزوری کی نشان وہی کرتا رہےگا۔
اس میں ایمان والوں کے لیے بہت سے اسباق مضمر ہیں اللہ پاک سمجھنے اورغور و فکر کرنے کی توفیق عطا کرے، آمین۔
حضرت زینب بنت جحش ؓ امہات المؤمنین میں سے ہیں ان کی والدہ کا نام امیہ ہے۔
وہ عبدالمطلب کی بیٹی ہیں اور آنحضرت ﷺ کی پھوپھی ہیں۔
زید بن حارثہ کےنکاح میں تھیں جو آنحضرتﷺ کےآزاد کردہ غلام تھے پھر حضرت زید نے ان کو طلاق دے دی تھی۔
اس کےبعد 8ھ میں یہ حضرت رسول کریم ﷺ کےحرم میں داخل ہوئیں۔
حضرت زینب ؓ ازواج مطہرات میں آپ ﷺ کی وفات کے بعد سب پہلے انتقال کرنے والی ہیں۔
حضرت عائشہ ؓ ان کی شان میں فرماتی ہیں حضرت زینب ؓسب سےزیادہ دیندار، سب سےبڑھ کر تقویٰ شعار، سب سےزیادہ سچ بولنے والی ہیں۔
20ھ میں بعمر 53ھ سال مدینہ میں وفات پائی۔
حضرت عائشہ اور حضرت ام حبیبہ ؓ وغیرہ ان سے روایت حدیث کرتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4912   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4912  
4912. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ حضرت زینب بنت حجش‬ ؓ ک‬ے ہاں شہد پیتے اور ان کے پاس ٹھہرتے تھے، چنانچہ میں نے اور حضرت حفصہ‬ ؓ ن‬ے باہمی اتفاق سے طے کر لیا کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں سے جس کے پاس بھی آئیں تو وہ کہے کہ آپ نے مغافیر کھائی ہے کیونکہ میں آپ سے مغافیر کی بو محسوس کرتی ہوں۔ (چنانچہ جب آپ تشریف لائے تو منصوبے کے مطابق یہی کہا گیا۔) آپ نے فرمایا: ایسا نہیں ہے، لیکن میں نے زینب بنت حجش کے ہاں سے شہد پیا تھا، اب نہیں پیوں گا۔ میں نے اس کی قسم اٹھا لی ہے لیکن تم نے اس کا کسی سے ذکر نہیں کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4912]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے لطیف مزاج اور نفاست پسند تھے۔
آپ کو یہ بات انتہائی ناپسند تھی کہ آپ کے جسم یا کپڑوں سے کوئی ناگوار بو آئے۔
آپ ہمیشہ خوشبو کو پسند کرتے اورخوشبو لگایا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ پروگرام اس لیے تشکیل دیا تھا تا کہ آپ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں جانا اور وہاں قیام کرنا کچھ کم کردیں۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو خوش کرنے کے لیے شہد نہ کھانے کی قسم اٹھا لی، جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو متنبہ فرمایا۔

چونکہ بیویوں کو خوش کرنے کے لیے ایک حلال چیز کوحرام کرلینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا وہ اگرچہ آپ کے اہم ترین ذمہ دارانہ منصب کے لحاظ سے مناسب نہ تھا، لیکن یہ کوئی گناہ بھی نہ تھا کہ اس پر مواخذہ کیا جاتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صرف ٹوک کر اس کی اصلاح کر دینے پر اکتفا فرمایا اور آپ کی اس لغزش کو معاف کردیا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4912