صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
80. سورة {عَبَسَ} :
باب: سورۃ عبس کی تفسیر۔
عَبَسَ وَتَوَلَّى: كَلَحَ وَأَعْرَضَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مُطَهَّرَةٍ: لَا يَمَسُّهَا إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ وَهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَهَذَا مِثْلُ قَوْلِهِ: فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا: جَعَلَ الْمَلَائِكَةَ وَالصُّحُفَ مُطَهَّرَةً لِأَنَّ الصُّحُفَ يَقَعُ عَلَيْهَا التَّطْهِيرُ، فَجُعِلَ التَّطْهِيرُ لِمَنْ حَمَلَهَا أَيْضًا سَفَرَةٍ: الْمَلَائِكَةُ وَاحِدُهُمْ سَافِرٌ سَفَرْتُ أَصْلَحْتُ بَيْنَهُمْ وَجُعِلَتِ الْمَلَائِكَةُ إِذَا نَزَلَتْ بِوَحْيِ اللَّهِ وَتَأْدِيَتِهِ كَالسَّفِيرِ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ الْقَوْمِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَصَدَّى: تَغَافَلَ عَنْهُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَمَّا يَقْضِ لَا يَقْضِي أَحَدٌ مَا أُمِرَ بِهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَرْهَقُهَا: تَغْشَاهَا شِدَّةٌ، مُسْفِرَةٌ: مُشْرِقَةٌ، بِأَيْدِي سَفَرَةٍ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَتَبَةٍ أَسْفَارًا: كُتُبًا، تَلَهَّى: تَشَاغَلَ يُقَالُ وَاحِدُ الْأَسْفَارِ سِفْرٌ.
‏‏‏‏ «عبس‏» منہ بنایا۔ «تولى» منہ پھیر لیا۔ اوروں نے کہا «مطهرة‏» دوسری جگہ فرمایا «لا يمسها إلا المطهرون» ان کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں یعنی فرشتے تو محمول کی صفت حامل کی کر دی جیسے «فالمدبرات أمرا‏»، «فالمدبرات» سے مراد سوار ہیں (جو محمول ہیں) «مجازا» ان کے حاملوں یعنی گھوڑوں کو «مدبرات» کہہ دیا۔ «والصحف مطهرة» یہاں اصل میں «تطهير» کتابوں کی صفت ہے ان کے اٹھانے والوں یعنی فرشتوں کو بھی «مطهر» فرمایا۔ «سفرة‏» فرشتے یہ «سافر» کی جمع ہے عرب لوگ کہتے ہیں «سفرت بين القوم» یعنی اس نے قوم کے لوگوں میں صلح کرا دی، جو فرشتے اللہ کی وحی لے کر پیغمبروں کو پہنچاتے ہیں ان کو بھی «سفير» قرار دیا جو لوگوں میں ملاپ کراتا ہے۔ بعضوں نے کہا «سفرة‏» کے معنی لکھنے والے اوروں نے کہا «تصدى‏» کے معنی غافل ہو جانا ہے۔ مجاہد نے کہا «لما يقض‏ ما امره» کا معنی یہ ہے کہ آدمی کو جس بات کا حکم دیا گیا تھا وہ اس نے پورا پورا ادا نہیں کیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ترهقها‏ قترة» کا معنی یہ ہے کہ اس پر سختی برس رہی ہو گی۔ «مسفرة‏» چمکتے ہوئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «سفرة‏» کے معنی لکھنے والے سورۃ الجمعہ میں لفظ «أسفارا‏» اسی سے ہے یعنی کتابیں۔ «تلهى‏» غافل ہوتا ہے کہتے ہیں «الأسفار» جو کتابوں کے معنی میں ہے۔ «سفر‏.‏» بکسر سین کی جمع ہے۔
حدیث نمبر: 4937
حدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ زُرَارَةَ بْنَ أَوْفَى، يُحَدِّثُ عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ حَافِظٌ لَهُ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَمَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ القرآن وَهُوَ يَتَعَاهَدُهُ وَهُوَ عَلَيْهِ شَدِيدٌ فَلَهُ أَجْرَانِ".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زرارہ بن اوفی سے سنا، وہ سعد بن ہشام سے بیان کرتے تھے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے، مکرم اور نیک لکھنے والے (فرشتوں) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید باربار پڑھتا ہے۔ پھر بھی وہ اس کے لیے دشوار ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3779  
´تلاوت قرآن کے ثواب کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن کے پڑھنے میں ماہر ہو، وہ معزز اور نیک سفراء (فرشتوں) کے ساتھ ہو گا، اور جو شخص قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہو اور اسے پڑھنے میں مشقت ہوتی ہو تو اس کو دو گنا ثواب ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3779]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قرآن کے ماہر سے مراد حافظ اور تجوید کے ساتھ پڑھنے والا قاری یا عالم باعمل ہے۔

(2)
جو شخص تجوید کے ساتھ روانی سے نہیں پڑھ سکتا، اس کے باوجود شوق سے پڑھتا ہے، اور پڑھنے میں جو مشقت ہوتی ہے اسے برداشت کرتا ہے، اس کے لیے دگنا ثواب ہے۔
اس میں ان معمر حضرات کے لیے بڑی خوشخبری ہے جن کی زبان موٹی ہو جاتی ہے تو وہ کوشش کے باوجود صحت مخارج اور صفات حروف کا لحاظ رکھ کر الفاظ ادا نہیں کر سکتے، لہذا وہ تلاوت ترک نہ کریں بلکہ یہ عمل صالح جاری رکھیں۔

(3)
خلوص نیت کے ساتھ ادا کیا ہوا ناقص عمل بھی اللہ تعالی ٰ کو بہت پیارا ہے، جب وہ عمل نقص کے بغیر ادا کرنا ممکن نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3779   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2904  
´قرآن کے قاری کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور قرآن پڑھنے میں مہارت رکھتا ہے وہ بزرگ پاکباز فرشتوں کے ساتھ ہو گا، اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور بڑی مشکل سے پڑھ پاتا ہے، پڑھنا اسے بہت شاق گزرتا ہے تو اسے دہرا اجر ملے گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2904]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
قرآن پڑھنے میں مہارت رکھنے والا ہو یعنی حافظ قرآن ہونے کے ساتھ قرآن کو تجوید اور اچھی آواز سے پڑھنے والا ہو،
ایسا شخص نیکو کار بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہو گا،
اور جو مشقت کے ساتھ اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اسے قرآن پڑھنے کا ذوق وشوق ہے تو اسے اس مشقت کی وجہ سے دگنا اجر ملے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2904   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1454  
´قرآن پڑھنے کے ثواب کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص قرآن پڑھتا ہو اور اس میں ماہر ہو تو وہ بڑی عزت والے فرشتوں اور پیغمبروں کے ساتھ ہو گا اور جو شخص اٹک اٹک کر پریشانی کے ساتھ پڑھے تو اسے دہرا ثواب ملے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1454]
1454. اردو حاشیہ: دو اجر ہیں۔ ایک قرآن پڑھنے کا اور دوسرا مشقت برداشت کرنے اور بددل نہ ہونے کا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1454   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4937  
4937. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے، مکرم اور نیک لکھنے والے (فرشتوں) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید بار بار پڑھتا ہے اور وہ اس کے لیے دشوار ہے تو اسے دو گنا ثواب ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4937]
حدیث حاشیہ:
بعض لوگوں کی زبانوں پر الفاظ قرآن پاک جلدی نہیں چڑھتے اور ان کو باربار مشق کی ضرورت پڑتی ہے۔
ان ہی کے لئے دوگنا ثواب ہے کیونکہ وہ کافی مشقت کے بعد قراءت قرآن میں کامیاب ہوتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4937   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4937  
4937. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے، مکرم اور نیک لکھنے والے (فرشتوں) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید بار بار پڑھتا ہے اور وہ اس کے لیے دشوار ہے تو اسے دو گنا ثواب ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4937]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ قرآن مجید کا ماہر قیامت کے دن مکرم، نیک اور لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہو گا۔
(صحیح مسلم، صلاہ المسافرین، حدیث: 1862(798)

قرآن کے ماہر سے مراد وہ حافظ قرآن جو قرآن مجید کو صحیح طور پر پڑھتا ہے اور دوران تلاوت میں کوئی دشواری اور مشکل محسوس نہیں کرتا، اورجو شخص قرآن کی تلاوت کرنے میں دقت محسوس کرتا ہے، اس کے با وجود پڑھتا رہتا ہے اسے دوگنا اجر ملے گا۔
ایک اجر تلاوت کرنے کا اوردوسرا اس میں تکلیف اٹھانے کا لیکن وہ ماہر قرآن کے مرتبے اور مقام کو نہیں پہنچ سکے گا کیونکہ اس کی شان ہی الگ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس معنی کو زیادہ واضح او راجح قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 885/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4937