صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
83. سورة {وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ} :
باب: سورۃ «ويل للمطففين» کی تفسیر۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: بَلْ رَانَ: ثَبْتُ الْخَطَايَا، ثُوِّبَ: جُوزِيَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْمُطَفِّفُ لَا يُوَفِّي غَيْرَهُ.
‏‏‏‏ اور مجاہد نے کہا کہ «بل ران‏» کا معنی یہ ہے کہ گناہ ان کے دل پر جم گیا۔ «ثوب‏» بدلہ دیئے گئے۔ اوروں نے کہا «مطفف» وہ ہے جو پورا ماپ تول نہ دے (دغا بازی کرے)۔
حدیث نمبر: 4938
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ سورة المطففين آية 6، حَتَّى يَغِيبَ أَحَدُهُمْ فِي رَشْحِهِ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا، ان سے نافع اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس دن لوگ دونوں جہان کے پالنے والے کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑے ہوں گے تو کانوں کی لو تک پسینہ میں ڈوب جائیں گے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4278  
´حشر کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے: «يوم يقوم الناس لرب العالمين» جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے (سورۃ المطففین: ۶) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: لوگ اس طرح کھڑے ہوں گے کہ نصف کان تک اپنے پسینے میں غرق ہوں گے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4278]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قیامت کے دن سورج بہت قریب ہوگا۔
جس کی وجہ سے بہت پسینہ آئے گا۔
لیکن یہ پسینہ اپنے اپنے گناہوں کے مطابق کم زیادہ ہوگا۔

(2)
بعض نیک لوگ عرش کے سائے تلے ہوں گے۔
اس وقت عرش کےسائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔

(3)
عرش کے سائے کا شرف حاصل کرنے والے افراد کی تفصیل ایک حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے:
انصاف کرنے والا حکمران، اللہ کی عبادت میں مشغول رہنے والا جوان، مسجدوں سے محبت رکھنے والا (نمازی)
، محض اللہ کی رضا کےلئے کسی مومن سے محبت رکھنے والا، بدکاری کی دعوت رد کرکے اپنی پاک دامنی کی حفاظت کرنے والا، چھپا کر صدقہ کرنے والا، تنہائی میں اللہ کو یاد کر کے (اللہ کے سامنے عجزو انکسار کااظہار کرتے ہوئے)
اشک بار ہوجانے والا، دیکھئے: (صحیح البخاري، الذکاۃ، باب الصدقة بالیمین، حدیث 1423)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4278   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2422  
´قیامت کے دن حساب اور قصاص کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: «يوم يقوم الناس لرب العالمين» جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے (المطففین: ۶)، اور کہا: اس دن لوگ اللہ کے سامنے اس حال میں کھڑے ہوں گے کہ پسینہ ان کے آدھے کانوں تک ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2422]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
(المطففین: 6)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2422   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4938  
4938. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس دن لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے تو ان میں سے کئی نصف کانوں تک پسینے میں ڈوب جائیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4938]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے:
قیامت کے دن سورج ایک میل کی مقدار لوگوں کے قریب آجائے گا پس لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ہوں گے۔
یہ پسینہ کسی کے ٹخنوں تک کسی کے گھٹنوں تک کسی کی کمر تک اور کسی کے لیے یہ لگام بنا ہوا ہو گا۔
یعنی اس کے منہ تک پسینہ ہو گا۔
(صحیح مسلم، الجنة و صفة نعیمھا و أھلھا، حدیث: 7296۔
(2862)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4938