صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابٌ:
باب:۔۔۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ: يَأْخُذُ كِتَابَهُ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِهِ، وَسَقَ: جَمَعَ مِنْ دَابَّةٍ، ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ: لَا يَرْجِعَ إِلَيْنَا.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا کہ «كتابه بشماله‏» کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنا نامہ اعمال اپنی پیٹھ پیچھے سے لے گا۔ «وما وسق‏» جانور وغیرہ جن جن چیزوں پر رات آتی ہے۔ «أن لن يحور‏» یہ کہ نہیں لوٹے گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «يوعون» سے مراد ہے وہ چھپاتے ہیں۔
حدیث نمبر: 4939
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عثمان بن اسود نے بیان کیا، انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4939  
4939. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن جس شخص سے حساب لیا گیا وہ تباہ ہوا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی مجھے آپ پر قربان کرے، کیا باری تعالٰی یہ نہیں فرمایا: جس کو اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا اس سے جلدی آسان سا حساب لیا جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ صرف اعمال کی پیشی ہو گی، انہیں صرف ان کے اعمال بتا دیے جائیں گے اور جس کے حساب کی تحقیق شروع ہو گئی وہ واقعی تباہ ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4939]
حدیث حاشیہ:

قرآن مجید میں بد اعمال لوگوں سے سخت حساب لینے کے لیےسوء الحساب کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ ان کا بری طرح حساب لیا جائے گا۔
آسان حساب کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے کسی حصے میں یہ دعا پڑھتے تھے۔
اے اللہ! میرا حساب آسان فرمانا۔
میں نے نماز سے فراغت کے بعد عرض کی آسان حساب کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ اس کا اعمال نامہ دیکھے گا اور اسے معاف کر دے گا۔
(مسند أحمد: 48/6)

ایک حدیث میں ہے۔
اللہ تعالیٰ بندے کو اپنے پردے میں لے کر اسے کہے گا۔
کیا تونے فلاں گناہ کیا تھا؟ کیا تو فلاں گناہ کو پہچانتا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔
میں نے ان پر دنیا میں پردہ ڈالے رکھا۔
آج میں تجھے معاف کرتا ہوں پھراسے اس کی نیکیوں کا نامہ اعمال دے دیا جائے گا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4685)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4939   
حدیث نمبر: 4939M
ح وحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔