صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
89. سورة {وَالْفَجْرِ} :
باب: سورۃ الفجر کی تفسیر۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْوَتْرُ اللَّهُ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ: يَعْنِي الْقَدِيمَةَ وَالْعِمَادُ أَهْلُ عَمُودٍ لَا يُقِيمُونَ، سَوْطَ عَذَابٍ: الَّذِي عُذِّبُوا بِهِ، أَكْلًا لَمًّا: السَّفُّ، وَجَمًّا: الْكَثِيرُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: كُلُّ شَيْءٍ خَلَقَهُ فَهُوَ شَفْعٌ السَّمَاءُ شَفْعٌ وَالْوَتْرُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَقَالَ غَيْرُهُ: سَوْطَ عَذَابٍ: كَلِمَةٌ تَقُولُهَا الْعَرَبُ لِكُلِّ نَوْعٍ مِنَ الْعَذَابِ يَدْخُلُ فِيهِ السَّوْطُ، لَبِالْمِرْصَادِ: إِلَيْهِ الْمَصِيرُ، تَحَاضُّونَ: تُحَافِظُونَ وَتَحُضُّونَ تَأْمُرُونَ بِإِطْعَامِهِ، الْمُطْمَئِنَّةُ: الْمُصَدِّقَةُ بِالثَّوَابِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ: إِذَا أَرَادَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَبْضَهَا اطْمَأَنَّتْ إِلَى اللَّهِ وَاطْمَأَنَّ اللَّهُ إِلَيْهَا وَرَضِيَتْ عَنِ اللَّهِ وَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَمَرَ بِقَبْضِ رُوحِهَا وَأَدْخَلَهَا اللَّهُ الْجَنَّةَ وَجَعَلَهُ مِنْ عِبَادِهِ الصَّالِحِينَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: جَابُوا: نَقَبُوا مِنْ جِيبَ الْقَمِيصُ قُطِعَ لَهُ جَيْبٌ يَجُوبُ الْفَلَاةَ يَقْطَعُهَا، لَمًّا: لَمَمْتُهُ أَجْمَعَ أَتَيْتُ عَلَى آخِرِهِ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «وتر» سے مراد اللہ تعالیٰ ہے۔ «إرم ذات العماد‏» سے پرانی قوم عاد مراد ہے۔ «عماد‏» کے معنی خیمہ کے ہیں، یہ لوگ خانہ بدوش تھے۔ جہاں پانی چارہ پاتے وہیں خیمہ لگا کر رہ جاتے۔ «سوط عذاب‏» کا معنی یہ کہ ان کو عذاب دیا گیا۔ «أكلا لما‏» سب چیز سمیٹ کر کھا جانا۔ «حبا جما‏» بہت محبت رکھنا۔ مجاہد نے کہا اللہ نے جس چیز کو پیدا کیا وہ ( «شفع») جوڑا ہے آسمان بھی زمین کا جوڑا ہے اور «وتر» صرف اللہ پاک ہی ہے۔ اوروں نے کہا «سوط عذاب‏» یہ عرب کا ایک محاورہ ہے جو ہر ایک قسم کے عذاب کو کہتے ہیں من جملہ ان کے ایک کوڑے کا بھی عذاب ہے۔ «لبالمرصاد‏» یعنی اللہ کی طرف سب کو پھر جانا ہے۔ «لا تحاضون‏» (الف کے ساتھ جیسے مشہور قرآت ہے) محافظت نہیں کرتے ہو بعضوں نے «متحضون» پڑھا ہے یعنی حکم نہیں دیتے ہو، «المطمئنة‏» وہ نفس جو اللہ کے ثواب پر یقین رکھنے والا ہو، مومن، کامل الایمان۔ امام حسن بصری نے کہا «نفس‏ المطمئنة‏» وہ نفس کہ جب اللہ اس کو بلانا چاہے (موت آئے) تو اللہ کے پاس چین نصیب ہو، اللہ اس سے خوش ہو، وہ اللہ سے خوش ہو۔ پھر اللہ اس کی روح قبض کرنے کا حکم دے اور اس کو بہشت میں لے جائے، اپنے نیک بندوں میں شامل فرما دے۔ اوروں نے کہا «جابوا‏» کا معنی کریدکرید کر مکان بنانا یہ «جيب» سے نکلا ہے جب اس میں «جيب» لگائی جائے، اسی طرح عرب لوگ کہتے ہیں «فلان يجوب الفلاة» وہ جنگل قطع کرتا ہے «لما» عرب لوگ کہتے ہیں «لممته» جمع میں اس کے اخیر تک پہنچ گیا۔