صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
94. سورة {أَلَمْ نَشْرَحْ} :
باب: سورۃ «ألم نشرح» کی تفسیر۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وِزْرَكَ: فِي الْجَاهِلِيَّةِ، أَنْقَضَ: أَثْقَلَ مَعَ، الْعُسْرِ يُسْرًا، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: أَيْ مَعَ ذَلِكَ الْعُسْرِ يُسْرًا آخَرَ كَقَوْلِهِ: هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ: وَلَنْ يَغْلِبَ عُسْرٌ يُسْرَيْنِ، وَقَال مُجَاهِدٌ: فَانْصَبْ: فِي حَاجَتِكَ إِلَى رَبِّكَ وَيُذْكَرُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ سورة الشرح آية 1شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «وزرك‏» سے وہ باتیں مراد ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاہلیت کے زمانہ میں صادر ہوئیں (ترک اولیٰ وغیرہ)۔ «أنقض‏» کے معنی بھاری کیا۔ «مع العسر يسرا‏» سفیان بن عیینہ نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مصیبت کے ساتھ دو نعمتیں ملتی ہیں جیسے آیت «هل تربصون بنا إلا إحدى الحسنيين‏» میں مسلمانوں کے لیے دو نیکیاں مراد ہیں اور حدیث میں ہے ایک مصیبت دو نیکیوں پر غالب نہیں آ سکتی اور مجاہد نے کہا «فانصب‏» یعنی اپنے پروردگار سے دعا مانگنے میں محنت اٹھا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے انہوں نے کہا «ألم نشرح‏ لك صدرك» سے مراد ہے کہ ہم نے تیرا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا۔