صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابٌ:
باب:۔۔۔
تَبَابٌ خُسْرَانٌ تَتْبِيبٌ تَدْمِيرٌ.
‏‏‏‏ «تباب» کے معنی تباہی ٹوٹا۔ «تتبيب» کے معنی تباہ کرنا۔
حدیث نمبر: 4971
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ، فَقَالُوا: مَنْ هَذَا؟ فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ، فَقَالَ:" أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ، أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟" قَالُوا: مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا، قَالَ:" فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ"، قَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ مَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا، ثُمَّ قَامَ، فَنَزَلَتْ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ سورة المسد آية 1، وَقَدْ تَبَّ هَكَذَا قَرَأَهَا الْأَعْمَشُ يَوْمَئِذٍ.
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا: یاصباحاہ! قریش نے کہا یہ کون ہے، پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے، تو کیا تم مجھ کو سچا نہیں سمجھو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹ کا آپ سے تجربہ کبھی بھی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ یہ سن کر ابولہب بولا، تو تباہ ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے اور آپ پر یہ سورت نازل ہوئی «تبت يدا أبي لهب وتب‏» الخ یعنی دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور وہ برباد ہو گیا۔ اعمش نے یوں پڑھا «وقد تب» جس دن یہ حدیث روایت کی۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4971  
´اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرانا`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` جب یہ آیت نازل ہوئی «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا: یاصباحاہ! قریش نے کہا یہ کون ہے، پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/بَابٌ: 4971]

تخريج الحديث:
[124۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 1 باب حدثنا يوسف 4971، مسلم 208]
لغوی توضیح:
«الصَّفَا» مکہ میں ایک مقام کا نام۔
«يَا صَبَاحَاه» یہ وہ کلمہ ہے جو فریاد کرنے والا پکارتا ہے یا لوگوں کو کسی اہم کام کے لیے جمع کرنے کی غرض سے پکارا جاتا ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 124   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3363  
´سورۃ «تبت یدا» سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا (پہاڑ) پر چڑھ گئے، وہاں سے یا «صباحاه» ۱؎ آواز لگائی تو قریش آپ کے پاس اکٹھا ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانے والا (بنا کر بھیجا گیا) ہوں، بھلا بتاؤ تو اگر میں تمہیں خبر دوں کہ (پہاڑ کے پیچھے سے) دشمن شام یا صبح تک تم پر چڑھائی کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچا جانو گے؟ ابولہب نے کہا کیا: تم نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا؟ تمہارا ستیاناس ہو ۲؎، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «تبت يدا أبي لهب وتب» ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3363]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ آواز عرب اس وقت لگایا کرتے تھے جب قبیلہ حملہ والوں کو کسی خاص اوراہم معاملہ کے لیے جمع کرنا ہوتا تھا۔

2؎:
دیگر روایات میں آتا ہے کہ لوگوں کے جمع ہو جانے پر پہلے آپﷺ نے ان سے تصدیق چاہی کہ اگر میں ایسا کہوں تو کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے،
یا نہیں؟ اس پر انھوں نے کہا،
کیوں نہیں کریں گے،
آپﷺ ہمارے درمیان امین اور صادق مسلم ہیں،
اس پر آپ ﷺنے توحید کی دعوت پیش کی اس دلیل سے کہ تب میری اس بات پر بھی تصدیق کرو اس پر ابولہب نے مذکورہ بات کہی۔

3؎:
ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا (تبت: 1)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3363   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4971  
4971. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔ اور ان لوگوں کو بھی خبردار کریں جو آپ کے گروہ میں مخلص ہیں، تو رسول اللہ ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور بآواز بلند کہا: یا صباحاہ! قریش نے کہا: یہ کون ہے؟ پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خیال کرو گے؟ تمام نے بیک زبان جواب دیا: ہمیں کبھی جھوٹ کا آپ سے تجربہ نہیں ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر میں تمہیں اس عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ اس وقت ابولہب نے کہا: تیری تباہی ہو، کیا تو نے ہمیں یہاں اس لیے جمع کیا تھا؟ پھر آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے تو یہ سورت نازل ہوئی: ﴿تَبَّتْ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ اعمش نے اس آیت کو یوں پڑھا ہے: وقد تب۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4971]
حدیث حاشیہ:
دشمن کے حملہ کے خطرہ کے وقت اپنی قوم کو تنبیہ کرنے کے لئے اہل عرب لفظ یا صباحاہ کے ساتھ پکارا کرتے تھے۔
آنحضرت کو بھی ان کے کفر و شرک اور جہالت کے خلاف انہیں تنبیہ کرنا اور ڈرانا تھا۔
اس لئے آپ نے انہیں اس طرح پکارا جس طرح دشمن کے خطرہ کے وقت پکارا جاتا تھا۔
حضرت ابن عباس نے آیت ﴿و أَنذِر عَشیرَتك﴾ والی کے ساتھ لفظ ﴿و رھطكَ منھُمُ المُخلصِینَ﴾ بھی زیادہ کئے ہیں لیکن جمہور نے اس آیت کو نہیں پڑھا۔
اسی لئے یہ مصحف عثمانی میں بھی نہیں لکھی گئی۔
شاید اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی جس کا علم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو نہ ہو سکا ہو۔
قد کا لفظ قرآن شریف میں نہیں ہے۔
اعمش نے یہ اپنے طور پر کہا کہ اللہ نے جو خبر دی تھی وہ پوری ہو گئی وقد تب کا یہی معنی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4971   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4971  
4971. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔ اور ان لوگوں کو بھی خبردار کریں جو آپ کے گروہ میں مخلص ہیں، تو رسول اللہ ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور بآواز بلند کہا: یا صباحاہ! قریش نے کہا: یہ کون ہے؟ پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خیال کرو گے؟ تمام نے بیک زبان جواب دیا: ہمیں کبھی جھوٹ کا آپ سے تجربہ نہیں ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر میں تمہیں اس عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ اس وقت ابولہب نے کہا: تیری تباہی ہو، کیا تو نے ہمیں یہاں اس لیے جمع کیا تھا؟ پھر آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے تو یہ سورت نازل ہوئی: ﴿تَبَّتْ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ اعمش نے اس آیت کو یوں پڑھا ہے: وقد تب۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4971]
حدیث حاشیہ:
ابولہب کا نام عبدالعزی بن عبدالمطلب تھا۔
ابولہب اس کی کنیت تھی۔
چونکہ یہ گورا اور خوبصورت تھا، اس لیے قریش نے اسے ابولہب کا لقب دیا تھا جو بعد اسلام دشمنی کی وجہ سے اس کے، شعلے مارنے والی دوزخ کی آگ میں جانے کے لیے ایک دستاویز کی صورت اختیار کر گیا۔
قرآن کریم نے اس کا اصل نام چھوڑ کر ابولہب کا ذکر کیا ہے، کیونکہ ابو لہب کنیت میں جہنم سے ایک مناسبت تھی۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4971