صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
5. بَابُ أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ:
باب: قرآن مجید سات قراتوں سے نازل ہوا ہے۔
حدیث نمبر: 4992
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدٍ الْقَارِيَّ حَدَّثَاهُ، أَنَّهُمَا سَمِعَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَمَعْتُ لِقِرَاءَتِهِ، فَإِذَا هُوَ يَقْرَأُ عَلَى حُرُوفٍ كَثِيرَةٍ لَمْ يُقْرِئْنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكِدْتُ أُسَاوِرُهُ فِي الصَّلَاةِ فَتَصَبَّرْتُ، حَتَّى سَلَّمَ فَلَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ، فَقُلْتُ: مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي سَمِعْتُكَ تَقْرَأُ؟ قَالَ: أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: كَذَبْتَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَقْرَأَنِيهَا عَلَى غَيْرِ مَا قَرَأْتَ , فَانْطَلَقْتُ بِهِ أَقُودُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ بِسُورَةِ الْفُرْقَانِ عَلَى حُرُوفٍ لَمْ تُقْرِئْنِيهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْسِلْهُ، اقْرَأْ يَا هِشَامُ فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَذَلِكَ أُنْزِلَتْ، ثُمَّ قَالَ: اقْرَأْ يَا عُمَرُ، فَقَرَأْتُ الْقِرَاءَةَ الَّتِي أَقْرَأَنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَذَلِكَ أُنْزِلَتْ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ".
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، ان سے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن عبدالقاری نے بیان کیا، انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں، میں نے ہشام بن حکیم کو سورۃ الفرقان نماز میں پڑھتے سنا، میں نے ان کی قرآت کو غور سے سنا تو معلوم ہوا کہ وہ سورت میں ایسے حروف پڑھ رہے ہیں کہ مجھے اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھایا تھا، قریب تھا کہ میں ان کا سر نماز ہی میں پکڑ لیتا لیکن میں نے بڑی مشکل سے صبر کیا اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کی چادر سے ان کی گردن باندھ کر پوچھا یہ سورت جو میں نے ابھی تمہیں پڑھتے ہوئے سنی ہے، تمہیں کس نے اس طرح پڑھائی ہے؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی طرح پڑھائی ہے، میں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس سے مختلف دوسرے حرفوں سے پڑھائی جس طرح تم پڑھ رہے تھے۔ آخر میں انہیں کھینچتا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے اس شخص سے سورۃ الفرقان ایسے حرفوں میں پڑھتے سنی جن کی آپ نے مجھے تعلیم نہیں دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ تم پہلے انہیں چھوڑ دو اور اے ہشام! تم پڑھ کے سناؤ۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی ان ہی حرفوں میں پڑھا جن میں میں نے انہیں نماز میں پڑھتے سنا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا کہ یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ پھر فرمایا عمر! اب تم پڑھ کر سناؤ میں نے اس طرح پڑھا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تعلیم دی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی سن کر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ یہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے پس تمہیں جس طرح آسان ہو پڑھو۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4992  
4992. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں، سیدنا ہشام بن حکیم ؓ کو دوران نماز سورہ فرقان پڑھتے سنا۔ میں نے ان کی قراءت پر غور کیا تو وہ کئی ایسے حروف پڑھتے تھے۔ جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پر حملہ کر دیتا لیکن میں صبر سے کام لیا۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر کھینچا اور کہا: یہ سورت جو میں نے ابھی تمہیں پڑھتے ہوئے سنا ہے، آپ کو کس نے پڑھائی ہے؟ میں نے کہا: تم غلط کہتے ہو۔ خود رسول اللہ ﷺ نے مجھے تمہاری اس قراءت سے مختلف پڑھائی ہے۔ آخر میں اسے کھینچتا ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آیا اور عرض کی کہ میں نے اس شخص کو سورہ فرقان ایسی قراءت میں پڑھتے سنا ہے جس کی آپ نے مجھے تعلیم دی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ اے ہشام!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4992]
حدیث حاشیہ:
سات طریقوں یا سات حرفوں سے سات قرآت مراد ہیں۔
جیسے مالكِ یومِ الدین میں ملكِ یومِ الدین اور ملاكِ یومِ الدین مختلف قراءتیں ہیں ان سے معانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لئے ان ساتوں قراءتوں پر قراءت قرآن کریم جائز ہے۔
ہاں مشہور عام قراءت وہ ہیں جن میں موجودہ قرآن مجید مصحف عثمانی کی شکل میں موجود ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4992   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4992  
4992. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں، سیدنا ہشام بن حکیم ؓ کو دوران نماز سورہ فرقان پڑھتے سنا۔ میں نے ان کی قراءت پر غور کیا تو وہ کئی ایسے حروف پڑھتے تھے۔ جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پر حملہ کر دیتا لیکن میں صبر سے کام لیا۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر کھینچا اور کہا: یہ سورت جو میں نے ابھی تمہیں پڑھتے ہوئے سنا ہے، آپ کو کس نے پڑھائی ہے؟ میں نے کہا: تم غلط کہتے ہو۔ خود رسول اللہ ﷺ نے مجھے تمہاری اس قراءت سے مختلف پڑھائی ہے۔ آخر میں اسے کھینچتا ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آیا اور عرض کی کہ میں نے اس شخص کو سورہ فرقان ایسی قراءت میں پڑھتے سنا ہے جس کی آپ نے مجھے تعلیم دی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ اے ہشام!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4992]
حدیث حاشیہ:

حروف سبعہ کی تعیین میں بہت اختلاف ہے۔
بعض اہل علم نے اس سے سات لغات مراد لی ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ حضرت ہشام اور حضرت عمرؓ دونوں قریشی تھے، ان کی لغت ایک تھی، اس کے باوجود ان کا اختلاف ہوا۔
یہ کوئی معقول بات نہیں کہ رسول اللہﷺ ایک ہی آدمی کو قرآن مجید ایسی لغت میں سکھلائیں جو اس کی لغت نہ ہو۔
بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس سے مراد ایک معنی کو مختلف حروف و الفاظ سے ادا کرنا ہے اگرچہ ایک ہی لغت ہو کیونکہ حضرت عمر اور حضرت ہشامؓ کی ایک ہی لغت تھی۔
اس کے باوجود ان کی قراءت میں اختلاف ہوا۔
اس سلسلے میں دو باتوں پر اتفاق ہے:
۔
قرآن کریم کو سبعہ حروف سے پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم کے ہر لفظ کو سات طریقوں سے پڑھنا جائز ہے کیونکہ چند ایک کلمات کے علاوہ بیشتر کلمات اس اصول کے تحت نہیں آتے۔
۔
سبعہ حروف سے مراد ان سات ائمہ کی قراءت ہر گز نہیں جو اس سلسلے میں مشہور ہیں کیونکہ سب سے پہلا شخص جس نے ان سات قراءات کو جمع کرنے کا اہتمام کیا وہ ابن مجاہد ہے جس کا تعلق چھٹی صدی سے ہے۔

امام جزری ؒ فرماتے ہیں کہ میں اس حدیث کو بہت مشکل خیال کرتا تھا حتی کہ میں نے تیس سے زیادہ سال تک اس پر غور و خوض کیا۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قراءت کا اختلاف سات وجوہ سے باہر نہیں ہے جو حسب ذیل ہیں:
۔
معنی اور صورت خطی میں تبدیلی کے بغیر صرف حرکات میں اختلاف ہو، جیسا کہ کلمہ یَحسَبُ کو دو طرح اور کلمہ بُخل کو چار طرح پڑھا گیا ہے۔
۔
صورت خطی میں اختلاف کی بجائے صرف معنی میں اختلاف ہو، جیسا کہ ﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ﴾ کو دو طرح پڑھا گیا ہے:
آدم کی رفعی اور کلمات کی نصبی حالت۔
٭آدم کی نصبی اور کلمات کی رفعی حالت۔
۔
صورت خطی کی بجائے حروف میں تبدیلی ہو گی، جس سے معنی بھی بدل جائے گا جیسا کہ تبلوا کو تتلوا پڑھا گیا ہے۔
۔
صورت صورت خطی کی بجائے حروف میں تبدیلی ہو گی، لیکن اس سے معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی، جیسا کہ بصطۃ کو بسطۃ اور الصراط کو السراط پڑھا گیا ہے۔
۔
صورت خطی کی بجائے حروف میں تبدیلی ہو گی، جس سے معنی بھی بدل جائےصورت خطی اور حروف دونوں کی تبدیلی ہو گی جس سے معنی بھی تبدیل ہو گا، جیسا کہ أشد منکم کو أشد منهم پڑھا گیا ہے۔
صورت خطی کی بجائے حروف میں تبدیلی ہو گی، جس سے معنی بھی بدل جائےتقدیم و تاخیر کا اختلاف ہو گا، جیسا کہ فیقتلون ویقتلون میں ہے، اس میں پہلا معروف اور دوسرا مجہول ہے اسے یوں پڑھا گیا ہے۔
ویقتلون فیقتلون۔
۔
حروف کی کمی بیشی میں اختلاف ہو گا، جیسا کہ و أوصی کو و وصی پڑھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اظہار و ادغام، روم و اشمام، تفخیم و ترقیق، مد و قصر، امالہ و فتح، تحقیق و تسہیل اور ابدال و نقل وغیرہ جسے فن قراءت میں اصول کا نام دیا جاتا ہے۔
یہ ایسا اختلاف نہیں ہے جس سے معنی یا لفظ میں تبدیلی آتی ہو (النشر: 1/26)
۔
دور حاضر میں بعض اہل علم کی طرف سے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی ایک ہی قراءت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے، اس کے علاوہ جو قراءت مدارس میں پڑھی یا پڑھائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں وہ سب فتنۂ عجم کی باقیات ہیں۔
ہمارے رجحان کے مطابق مذکورہ دعوی بلا دلیل ہے کیونکہ یہ قراءات صحابہ وتابعین سے تواتر کے ساتھ منقول ہیں اور رسم عثمانی کی حدود کے اندر اور اس کے مطابق ہیں۔

واضح رہے کہ قرآن کریم میں کسی بھی قراءت کے مستند ہونے کے لیے درج ذیل قاعدہ ہے:
جو قراءت قواعد عربیہ کے مطابق ہو اگر یہ مطابقت بوجہ ہو۔
مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق ہو، خواہ یہ مطابقت احتمالاً ہو، نیز وہ صحیح متواتر سند سے ثابت ہو۔
اس اصول کے مطابق جو بھی قراءت ہوگی وہ قراءت صحیحہ اور ان حروف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا ہے اور تمام مسلمانوں پر اس کا قبول کرنا واجب ہے۔
اگر ان تینوں شرائط میں سے کسی شرط میں خلل آجائے تو وہ قراءت شاذہ، ضعیف یا باطل ہوگی۔
(النشر: 9/1)
بہرحال قراءات متواترہ جنھیں احادیث میں احرف سبعہ سے تعبیر کیا گیا ہے وہ آج بھی موجود ہیں اور ان کے انکار کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔

اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ تدوین قرآن کے وقت عربی کتابت نقاط وحرکات سے خالی ہوتی تھی، اس لیے ایک ہی نقش میں مختلف قراءات کے سما جانے کی گنجائش تھی۔
لوگوں کی سہولت کےلیے جب حروف پر نقاط حرکات لگیں تو قرآن مجید بھی علیحدہ علیحدہ قراءت میں شائع ہونے لگے، چنانچہ ہمارے ہاں برصغیر میں قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، اس طرح مغرب،الجزائر،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت نافع بروایت ورش عام ہے اور اسی کے مطابق قرآن کریم کی اشاعت ہوتی ہے چنانچہ راقم نے مدینہ طیبہ میں دوران تعلیم میں قراءت نافع بروایت قالون اور بروایت ورش دونوں الگ الگ مصاحف دیکھے تھے، نیز قراءت امام کسائی کا مصحف بھی نظر سے گزراتھا۔
یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ ہمارے ہاں روایت حفص پر مشتمل مصاحف ہی دستیاب ہیں، اس لیے اسے قرآن کے مترادف خیال کیا جاتاہے اور اس بنیاد پر دوسری متواتر قراءات کا انکار کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے۔
حال ہی میں سعودی عرب کے مجمع الملک فہد نے بھی لاکھوں کی تعداد میں روایت ورش، روایت دوری اور روایت قالون کے مطابق مصاحف ان مسلم ممالک کے لیے طبع کیے ہیں جن میں ان کے مطابق قراءت کی جاتی ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4992