صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
8. بَابُ الْقُرَّاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں قرآن کے قاری (حافظ) کون کون تھے؟
حدیث نمبر: 5000
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ:" خَطَبَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ أَخَذْتُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضْعًا وَسَبْعِينَ سُورَةً، وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي مِنْ أَعْلَمِهِمْ بِكِتَابِ اللَّهِ وَمَا أَنَا بِخَيْرِهِمْ". قَالَ شَقِيقٌ: فَجَلَسْتُ فِي الْحِلَقِ أَسْمَعُ مَا يَقُولُونَ، فَمَا سَمِعْتُ رَادًّا، يَقُولُ: غَيْرَ ذَلِكَ.
ہم سے عمرو بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق بن سلمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور کہا کہ اللہ کی قسم میں نے کچھ اوپر ستر سورتیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر حاصل کی ہیں۔ اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ قرآن مجید کا جاننے والا ہوں حالانکہ میں ان سے بہتر نہیں ہوں۔ شقیق نے بیان کیا کہ پھر میں مجلس میں بیٹھا تاکہ صحابہ کی رائے سن سکوں کہ وہ کیا کہتے ہیں لیکن میں نے کسی سے اس بات کی تردید نہیں سنی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5000  
5000. سیدنا شقیق بن سلمہ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے ستر سے زیادہ سورتیں خود رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سن کر یاد کی ہیں۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام‬ ؓ ک‬و یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ قرآن کریم کا جاننے والا ہوں۔ حالانکہ میں ان سے بہتر نہیں ہوں۔ شقیق کہتے ہیں کہ میں لوگوں کے مجمع میں بیٹھتا تا کہ لوگوں کے تاثرات معلوم کروں لیکن میں نے کسی سے اس بات کی تردید نہیں سنی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5000]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود نے یہ اپنا واقعی حال بیان فرمایا گو اس میں فضیلت نکلی ان کی نیت غرور اور تکبر کی نہ تھی ہاں فخر و غرور سے ایسا کہنا منع ہے۔
إنمَا الأعمالُ بِالنیاتِ۔
شقیق کا قول محل غور ہے کیونکہ ابن ابی داؤد نے زہری سے نکالا ہے انہوں نے کہا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول کو مجاہد نے پسند نہیں کیا (وحیدی)
سچ ہے۔
﴿و فَوقَ کُل ذِی عِلم عَلِیم﴾
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5000   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5000  
5000. سیدنا شقیق بن سلمہ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے ستر سے زیادہ سورتیں خود رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سن کر یاد کی ہیں۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام‬ ؓ ک‬و یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ قرآن کریم کا جاننے والا ہوں۔ حالانکہ میں ان سے بہتر نہیں ہوں۔ شقیق کہتے ہیں کہ میں لوگوں کے مجمع میں بیٹھتا تا کہ لوگوں کے تاثرات معلوم کروں لیکن میں نے کسی سے اس بات کی تردید نہیں سنی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5000]
حدیث حاشیہ:

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا حال واقعی بیان کیا ہے۔
ان کی نیت میں فخر و غرور کا اظہار نہ تھا جیسا کہ خود انھوں نے وضاحت فرمائی ہے کہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے افضل نہیں ہوں۔
البتہ شقیق رحمۃ اللہ علیہ کا قول محل نظر ہے کیونکہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بات کو پسند نہ کیا ممکن ہے کہ جہت اختلاف کی وجہ سے ایسا ہو۔

یقیناً حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کریم کے عالم اور بہترین قاری تھے لیکن انھوں نے مصحف عثمانی کے مقابلے میں اپنے مصحف کو باقی رکھنے پر اصرار کیا۔
اس بات کو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پسند نہیں فرمایا:
حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مصحف پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اتفاق ہو چکا تھا۔
(فتح الباري: 62/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5000