صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
24. بَابُ الْقِرَاءَةِ عَلَى الدَّابَّةِ:
باب: سواری پر تلاوت کرنا۔
حدیث نمبر: 5034
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو إِيَاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ وَهُوَ يَقْرَأُ عَلَى رَاحِلَتِهِ سُورَةَ الْفَتْحِ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابوایاس نے خبر دی، کہا کہ میں نے عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن دیکھا کہ آپ سواری پر سورۃ الفتح کی تلاوت فرما رہے تھے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1467  
´قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے روز ایک اونٹنی پر سوار دیکھا، آپ سورۃ الفتح پڑھ رہے تھے اور (ایک ایک آیت) کئی بار دہرا رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1467]
1467. اردو حاشیہ: صحیح حدیث میں ہے کہ جناب معاویہ بن قرۃ نے حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت پڑھ کر سنائی۔ اور کہا کہ اگر لوگوں کے اکھٹے ہوجانے کا اندیشہ نہ ہوتا۔ تو میں تمھیں سیدنا ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت سناتا جو انہوں نے مجھے نبی کریمﷺ سے سنائی تھی۔ شعبہ کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا ان کی ترجیح کس طرح تھی؟ انہوں نے کہا: آآآ تین بار [صحیح بخاری، التوحید، حدیث: 7540]
ترجیع سے مراد آواز کو حلق میں لوٹانا اور بلند کرنا ہے۔ تاکہ لحن لزیز بن جائے۔ معلوم ہوا ترجیع اور عمدہ لحن سے قرآن پڑھنا مستحب اور مطلوب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1467   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5034  
5034. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت انہوں نے کہا کہ میں فتح مکہ والے دن، رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی سواری پر سورہ فتح تلاوت کررہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5034]
حدیث حاشیہ:
قرآن پاک کی تلاوت بھی ایک قسم کا ذکر الٰہی ہے جو آیت ﴿الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ﴾ (آل عمران: 191)
کے تحت ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5034   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5034  
5034. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت انہوں نے کہا کہ میں فتح مکہ والے دن، رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی سواری پر سورہ فتح تلاوت کررہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5034]
حدیث حاشیہ:
بعض اسلاف سے سواری پر تلاوت کرنے کے متعلق کراہت منقول ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تردید کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے شارح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ثابت کرنا ہےکہ سواری پر تلاوت کرنا مسنون امر ہے اور اس سنت کی بنیاد درج ذیل ارشادباری تعالیٰ ہے۔
پھر تم اس پر ٹھیک طرح بیٹھ جاؤ تو اپنے پروردگار کا احسان یاد کرو اور کہو:
پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارےلیے اسے مسخر کر دیا اور ہم تو اسے قابو میں نہ لاسکتےتھے۔
(الزخرف: 43۔
13)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سواری پر بیٹھتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔
(سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (13)
وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ)

اس سے معلوم ہوا کہ سواری پر قرآن پڑھا جا سکتا ہے اس کا اصل قرآن میں موجود ہے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3275۔
(1342، فتح الباري: 97/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5034