صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
25. بَابُ تَعْلِيمِ الصِّبْيَانِ الْقُرْآنَ:
باب: بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا۔
حدیث نمبر: 5036
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، جَمَعْتُ الْمُحْكَمَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ:" وَمَا الْمُحْكَمُ؟ قَالَ: الْمُفَصَّلُ".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوبشر نے خبر دی، انہیں سعید بن جبیر نے اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے محکم سورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سب یاد کر لی تھیں، میں نے پوچھا کہ محکم سورتیں کون سی ہیں؟ کہا کہ مفصل۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5036  
5036. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے محکم سورتیں رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یاد کرلی تھیں میں نے پوچھا: محکم سورتیں کون سی ہیں انہوں نے فرمایا: مفصل کی سب سورتیں محکم ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5036]
حدیث حاشیہ:
یعنی سورۃ حجرات سے آخری قرآن تک۔
محکم سے مراد وہ ہے جو منسوخ نہ ہو۔
فقلت له ابو بشر کا کلام ہے اور قال کی ضمیر سعید بن جبیر کی طرف پھرتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگلی روایت میں یہ صراحت ہے کہ یہ کلام سعید بن جبیر کا ہے، حافظ نے ایسا ہی کہا ہے اور عینی نے اپنی عادت کے موافق حافظ پر اعتراض جمایا کہ یہ ظاہر کے خلاف ہے۔
ظاہر یہی ہے کہ فقلت له سعید کا کلام ہے اور له کی ضمیر ابن عباس کی طرف پھرتی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ تو خود حافظ صاحب نے کہا ہے کہ ظاہر متبادر یہی ہے لیکن انہوں نے مبہم روایت کو مفسر روایت کے موافق محمول کیا اور یہی منا سبت ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5036   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5036  
5036. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے محکم سورتیں رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یاد کرلی تھیں میں نے پوچھا: محکم سورتیں کون سی ہیں انہوں نے فرمایا: مفصل کی سب سورتیں محکم ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5036]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بچپن ہی میں محکم سورتوں کو یاد کرلیا تھا، اس لیے معلوم ہوا کہ بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینا جائز ہے بلکہ اس اعتبار سے بہتر ہے کہ بچوں کو شروع ہی سے مانوس کیا جائے تا کہ قرآن مجید کی محبت ان کے دلوں میں رچ بس جائے، پھر بچپن میں یاد کیا ہوا قرآن پتھر پر لکیر کی طرح ہوتا ہے، ہمارا تجربہ ہے کہ بچپن میں یاد کیا ہوا قرآن بھولتا نہیں ہے۔

اس حدیث میں محکم سے مراد وہ سورتیں ہیں جو منسوخ نہیں ہوئیں۔
اس مقام پر محکم، متشابہ کے مقابل نہیں ہے اور مفصل کی سورتیں سورہ حجرات سے آخر قرآن تک ہیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فرمانا کہ میں دس برس کا تھا، یہ حفظ کے اعتبار سے ہے، دراصل عبارت یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو میں نے محکم سورتیں دس سال کی عمر میں یاد کر رکھی تھیں۔
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر دس برس سے زیادہ تھی۔
(فتح الباري: 106/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5036