صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
35. بَابُ الْبُكَاءِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ:
باب: قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت (خوف الٰہی سے) رونا۔
حدیث نمبر: 5055
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ يَحْيَى: بَعْضُ الْحَدِيثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں سلیمان نے، انہیں ابراہیم نخعی نے، انہیں عبیدہ سلمانی نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے، یحییٰ بن قطان نے کہا اس حدیث کا کچھ ٹکڑا اعمش نے ابراہیم سے سنا ہے کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4194  
´غمگین ہونے اور رونے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: میرے سامنے قرآن کی تلاوت کرو، تو میں نے آپ کے سامنے سورۃ نساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» تو اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور پھر ہم تم کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے (سورة النساء: 41) پر پہنچا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4194]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
جس طرح قرآن کی تلاوت بڑی نیکی ہے اس طرح قرآن سننا بھی ضروری ہے۔

(2)
قرآن کی تلاوت کا دل پر ایک خاص روحانی اثر ہوتا ہے۔

(3)
قرآن کا ترجمہ سیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے تاکہ تلاوت کا دل پر صحیح اثر ہوسکے۔

(4)
قرآن مجید کی تلاوت یا سننے کا اصل مقصد اس کے مطابق اپنی زندگی بنانے کی کوشش ہے۔

(5)
حدیث میں مذکور آیت میں قیامت کا ایک منظر پیش کی گیا ہے۔
اور قیامت خود ایک عبرت انگیز موضوع ہے۔
ضروری ہے کہ وعظ و نصیحت میں اس موضوع کو اہمیت دی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3024  
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں، چنانچہ میں نے آپ کے سامنے سورۃ نساء میں سے تلاوت کی، جب میں آیت «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» ۱؎ پر پہنچا تو رسول اللہ نے مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا (کہ بس کرو، آگے نہ پڑھو) میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3024]
اردو حاشہ:
وضاحت:
 
1؎:
پس کیا حال ہوگا اس وقت کہ جب ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے (النساء: 41)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3024   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3668  
´وعظ و نصیحت اور قصہ گوئی کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مجھ پر سورۃ نساء پڑھو میں نے عرض کیا: کیا میں آپ کو پڑھ کے سناؤں؟ جب کہ وہ آپ پر اتاری گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ میں اوروں سے سنوں پھر میں نے آپ کو «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد» اس وقت کیا ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے (سورة النساء: ۴۱) تک پڑھ کر سنایا، اور اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب العلم /حدیث: 3668]
فوائد ومسائل:

قرآن مجید سننا سنانا سب سے عمدہ وعظ ہے۔
بشرط یہ کہ انسان اس کے فہم سے آشنا ہو۔


رسول اللہ ﷺ رونا غالبا اس بنا پر تھا۔
کہ آپﷺ امت پر گواہ ہوں گے۔
جب کہ لوگ نا معلوم کیسے عمل کر کے آئیں گے۔
آیت کریمہ کا ترجمہ یہ ہے۔
پھر ان کا کیا حال ہوگا۔
جس وقت ہم ہر امت میں سے گواہ لایئں گے۔
اور آپ کو اس امت پر گواہ بنایئں گے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3668   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5055  
5055. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: میرے سامنے قرآن کی تلاوت کرو۔ میں نے عرض کی: کیا میں آپ کو قرآن سناؤں، حالانکہ آپ پر تو قرآن نازل کیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: بے شک میں چاہتا ہوں کہ کسی اور سے قرآن سنوں۔ انہوں نے کہا: پھر میں نے سورہ نساء کی تلاوت شروع کی۔ جب میں درج ذیل آیت ہر پہنچا: پھر اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم یر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ لائیں گے۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: رک جاؤ۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5055]
حدیث حاشیہ:
کف اور أمسك ہر دو کے ایک معنٰی ہیں یعنی رک جاؤ۔
آیت میں محشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت کا ذکر ہے جب آپ اپنی امت پر گواہی کے لئے پیش ہوں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5055   
حدیث نمبر: 5055M
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،قَالَ الْأَعْمَشُ وَبَعْضُ الْحَدِيثِ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، وَعَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَأْ عَلَيَّ، قَالَ: قُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ، قَالَ: إِنِّي أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي، قَالَ: فَقَرَأْتُ النِّسَاءَ حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ: فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41، قَالَ لِي: كُفَّ أَوْ أَمْسِكْ، فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَذْرِفَانِ".
دوسری سند ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے عبیدہ سلمانی نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے، اعمش نے بیان کیا کہ میں نے اس حدیث کا ایک ٹکڑا تو خود ابراہیم سے سنا اور ایک ٹکڑا اس حدیث کا مجھ سے عمرو بن مرہ نے نقل کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوالضحیٰ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ میں نے عرض کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میں کیا تلاوت کروں آپ پر تو قرآن مجید نازل ہی ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ کسی اور سے سنوں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر میں نے سورۃ نساء پڑھی اور جب میں آیت «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا‏» پر پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے) «كف» فرمایا یا «أمسك» راوی کو شک ہے۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔