صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
90. بَابُ سُتْرَةُ الإِمَامِ سُتْرَةُ مَنْ خَلْفَهُ:
باب: امام کا سترہ مقتدیوں کو بھی کفایت کرتا ہے۔
حدیث نمبر: 493
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ:" أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الِاحْتِلَامَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ، فَمَرَرْتُ بَيْنَ يَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ، فَنَزَلْتُ وَأَرْسَلْتُ الْأَتَانَ تَرْتَعُ، وَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ فَلَمْ يُنْكِرْ ذَلِكَ عَلَيَّ أَحَدٌ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا۔ اس زمانہ میں بالغ ہونے والا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ لیکن دیوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ تھی۔ میں صف کے بعض حصے سے گزر کر سواری سے اترا اور میں نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور صف میں داخل ہو گیا۔ پس کسی نے مجھ پر اعتراض نہیں کیا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 128  
´امام کا سترہ مقتدیوں کا سترہ ہوتا ہے`
«. . . عن عبد الله بن عباس انه قال: اقبلت راكبا على حمار وانا يومئذ قد ناهزت الاحتلام ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس بمنى، فمررت بين يدي بعض الصف فنزلت فارسلت الحمار يرتع ودخلت فى الصف، فلم ينكر ذلك على احد . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں ایک گدھے پر سوار ہو کر آیا اور میں اس وقت قریب البلوغ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ پس میں صف کے کچھ حصے کے سامنے سے گزرا پھر میں نے گدھے سے اتر کر اسے چھوڑ دیا تاکہ وہ چرتا پھرے اور میں صف میں داخل ہو گیا۔ پس کسی ایک نے بھی مجھ پر انکار نہیں کیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 128]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 493، ومسلم 504، من حديث مالك به نحو المعنٰي]

تفقه:
➊ امام کا سترہ مقتدیوں کا سترہ ہوتا ہے۔
➋ نماز میں سترہ قائم کرناسنت مؤکدہ ہے۔ نیز دیکھئے: [التمهيد 193/4]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی آدمی اپنے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی (ذراع) جتنا سترہ رکھے تو نماز پڑھے، اس سترے کے باہر سے اگر کوئی گزرے تو اسے نقصان نہیں ہے۔ [صحيح مسلم: 499]
➌ نماز میں سترہ رکھنا واجب نہیں ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منٰی میں لوگوں کو بغیر دیوار کے نماز پڑھا رہے تھے۔ [صحيح بخاري: 493]
اس کی تشریح میں امام شافعی فرماتے ہیں: بغیر سترے کے۔ [كتاب اختلاف الحديث مع الام ص 1746، فتح الباري ج 1 ص 571، السنن الكبريٰ للبيهقي 273/2]
● امام شعبہ نے اپنے استاد عمرو بن مرہ (راوئ حدیث) سے پوچھا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نیزہ تھا؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں۔ [مسند على بن الجعد: 90 و سنده صحيح، مسند ابي يعلٰي 312/4 ح 2423]
[مسندالبزار البحر الزخار 201/11 ح 4951] وغیرہ میں اس کے شواہد بھی ہیں۔
➍ یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو مسجد حرام میں دیکھا آپ اپنی لاٹھی گاڑ کر اس کی طرف نماز پڑھ رہے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 277/1 ح 2853 وسنده صحيح]
◄ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص مسجد میں سترہ رکھ کر نماز پڑھے تو یہ عمل بالکل صحیح ہے۔
➎ ہشام بن عروہ نے فرمایا: میرے ابا (عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ) سترے کے بغیر نماز پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 279/1 ح 2871 وسنده حسن]
●حسن بصری نے صحراء میں سترے کے بغیر نماز پڑھی۔ [مصنف ابن ابي شيبه 279/1 ح 2872 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 48   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:493  
493. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں جوانی کے قریب پہنچا ہوا تھا جب گدھی پر سوار ہو کر نماز کے لیے آیا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ منیٰ میں دیوار کے علاوہ (کسی اور سترے) کی طرف رخ کر کے لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ میں نمازیوں کی صف کے ایک حصے کے سامنے سے گزرا اور اتر گیا۔ پھر میں نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود نماز کی صف میں شامل ہو گیا لیکن کسی نے مجھ پر اس سلسلے میں کوئی اعتراض نہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:493]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے آگے دیوار کے علاوہ کوئی اور سترہ تھا۔
حضرت ابن عباس ؓ نماز میں کھڑے لوگوں کے سامنے سے گزرے تو کسی نے اعتراض نہ کیا، کیونکہ وہ سب سترے کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے کسی کے اعتراض کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، نفی جدار کا فائدہ تبھی ہے جب کسی دوسری چیزکا سترہ تسلیم کیا جائے بصورت دیگر یہ نفی لغو ٹھہرے گی، لیکن حافظ ابن حجر ؓ، جوتراجم سے احادیث کی مطابقت پیدا کرنے میں بڑے ماہر ہیں، اس مقام پر فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا استدلال محل نظر ہے، کیونکہ اس میں صراحت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ سترے کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، بلکہ امام بیہقی ؒ نے اس حدیث پربایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
سترے کے بغیر نماز پڑھنے کا بیان۔
اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امام شافعی ؒ نے إلی غیر جدار کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سترے کے بغیر نماز پڑھ رہے تھے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے مزید لکھا ہے کہ ہم نے کتاب العلم میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے امام شافعی ؒ کے مؤقف کی تائید میں روایت بزار بھی ذکر کی تھی۔
(فتح الباري: 739/1)
مسند بزار ے حوالے سے حافظ ابن حجر ؒ نے مذکورہ روایت بایں الفاظ نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اورآپ کے آگے کوئی چیز بطور سترہ نہ تھی۔
(فتح الباري: 226/1)

یہ سب باتیں اگرچہ بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہیں، لیکن اگرحدیث کے الفاظ پر غور کیا جائے تو امام بخاری ؒ کا مؤقف صحیح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ حدیث میں إلی غیر جدار کے الفاظ ہیں اور لفظ غیر ہمیشہ صفت کے لیے آتا ہے، اس لیے تقدیری عبارت یوں ہوگی:
(يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار)
یعنی رسول اللہ ﷺ منیٰ میں دیوار کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا رہے تھے۔
پھر رسول اللہ ﷺ کا عام معمول بھی یہی تھا کہ آپ جب کھلی فضا میں نماز پڑھاتے تو سترہ قائم فرمالیتے تھے، اس لیے حضرت ابن عباس ؓ کے الفاظ کا معمولات نبوی کے مطابق وہی مفہوم مراد لینا بہترہے جو امام بخاری ؒ نے سمجھاہے، نیز ابن عباس ؓ فرمارہے ہیں کہ میرے اس عمل پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
یہ بھی امام بخاری ؒ کی دلیل ہے کیونکہ جب سترہ قائم تھا تو کسی کے لیے اعتراض کا موقع ہی نہیں تھا۔
اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں:
اس حدیث کی عنوان سے بایں طور مطابقت ہے کہ إلی غیر جدار کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں سترہ تھا، کیونکہ غیر کا لفظ ہمیشہ صفت کے لیے آتا ہے۔
تقدیری عبارت یوں ہو گی کہدیوار کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف وہ چیز لاٹھی بھی ہوسکتی ہے، نیز بھی ہوسکتا ہے، ان کے علاوہ کوئی اور چیز بھی ہوسکتی ہے۔
(عمدة القاری: 569/2)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اس حدیث کے متعلق شرح تراجم بخاری میں یوں رقم طراز ہیں:
اس عنوان سے امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔
اگر کوئی امام کےسترے کی موجودگی میں مقتدیوں کے آگے سےگزر جائے تو وہ گناہگار نہیں ہوگا۔
اور امام بخاری ؒ نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ امام شافعیؒ کا إلی غیر جدار کے معنی إلی غیر سترة کرنا صحیح نہیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے سامنے دیوار کے علاوہ کوئی اور سترہ تھا اگرچہ وہ نیزہ یا برچھا وغیرہ ہو، کیونکہ آپ کے احوال کے تتبع سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ صحرا وغیرہ میں نماز پڑھتے تو آپ کے سامنے نیزہ گاڑا جاتا تھا، اسی لیے حضرت ابن عباس ؓ کے استدلال میں اشکال پیداہوگیا ہے، کیونکہ کسی شخص کے انکار نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز سترے کی طرف تھی اور قوم کا سترہ وہی ہوتا ہے جو امام کاسترہ ہو۔
اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہی ہے، اسے خوب سمجھ لو۔
یہ توجیہ بھی ممکن ہے کہ امام شافعی ؒ کے قول إلی غیر سترة سے مراد یہ ہوکہ دیوار کے سترے کے بغیر نماز پڑھی۔
اس سے مطلق سترے کی نفی نہیں۔
اس توجیہ سے امام شافعی اور دیگرمحدثین کے موقف میں کوئی اختلاف نہیں رہتا۔
واضح رہے کہ عربی زبان میں لفظ غیر اگرچہ نفی محض کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن اما م بخاری ؒ کے تصرف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں غیر بطور صفت استعمال ہواہے، اس معنی کی بنیاد پر دیوار کی نفی کا فائدہ ظاہر ہوتا ہے اور اگروہاں دیوانہ نہ تھی اور نہ کوئی دوسری چیز ہی تو دیوار کی نفی کرنا لغو ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے مسند بزار کے حوالے سے جو حدیث بیان کی ہے، اس پر ہماری گزارشات پہلے گزر چکی ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 493