صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
14. بَابُ مَنْ جَعَلَ عِتْقَ الأَمَةِ صَدَاقَهَا:
باب: جس نے لونڈی کی آزادی کو اس کا مہر قرار دیا۔
حدیث نمبر: 5086
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، وَشُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَعْتَقَ صَفِيَّةَ وَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت بنانی اور شعیب بن حبحاب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1909  
´ولیمہ کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کا ولیمہ ستو اور کھجور سے کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1909]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں۔
اس شخص نے غزوہ خندق کے موقع پر مسلمانوں سے کیے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشرکین کی مدد کی تھی اور یہودیوں کے دوسرے قبیلے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسعد کو بھی عہد شکنی پر آمادہ کیا تھا۔
جنگ خندق کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بنو قریظہ کو ان کی عہد شکنی کی سزا دینے کے لیے ان کے قلعوں پر فوج کشی کی تو حیی بن اخطب بھی ان کی حمایت میں قلعہ بند ہو گیا، جب بنو قریظہ کے قلعے فتح ہوئے تو ان کے بالغ مردوں کو قتل کر دیا گیا اور حیی بن اخطب بھی ان کے ساتھ قتل ہوا۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا خاوند کنانہ بن ابو الحقیق بھی جنگ خیبر میں اپنی بد عہدی کی وجہ سے قتل کر دیا گیا تو حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی قیدی عورتوں میں شامل کر لی گئیں۔
رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کے مشورے سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے لیے منتخب فرما لیا۔
آپ نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔
بعد میں نبی ﷺ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا اور ان کی آزادی کو ان کا حق مہر قرار دیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیئے:
الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، ص: 511)


(2)
ولیمے میں پکا ہوا کھانا ہونا ضروری نہیں۔
کوئی بھی چیز جو کسی معاشرے میں کھانے کے طور پر استعمال ہوتی ہو ولیمے کی مہمانی میں پیش کی جاسکتی ہے۔

(3)
لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کر لیا جائے تو اسے آزاد بیوی والے تمام حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1909   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 881  
´حق مہر کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 881»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب من جعل عتق الأمة صداقها، حديث:5086، ومسلم، النكاح، باب فضيلة إعتاقه أمته ثم يتزوجها، حديث:(84)-1365 بعد الحديث:1427.»
تشریح:
1. یہ حدیث‘ غلامی سے آزادی کو مہر مقرر کرنے کی صحت کے بارے میں بالکل واضح ہے۔
جمہور نے اس کی مخالفت کی ہے مگر انھوں نے اپنے موقف پر کوئی قابل اطمینان دلیل پیش نہیں کی۔
2. اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی منفعت کو مہر مقرر کرنا درست ہے کیونکہ آزادی بھی منفعت ہے، اور اس کی تائید میں وہ واقعہ بھی ہے جو پہلے گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم قرآن کو مہر مقرر کیا تھا۔
گویا مالیت کے علاوہ دوسری چیزیں بھی حق مہر مقرر کی جا سکتی ہیں۔
امام احمد اور امام اسحٰق رحمہما اللہ وغیرہما کا یہی موقف ہے۔
وضاحت: «حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ ام المومنین حضرت صفیہ‘ حُیَــي بـن أخـطب کی بیٹی تھیں۔
ان کا سلسلۂ نسب حضرت ہارون علیہ السلام برادر موسیٰ علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔
آپ اسی خانوادۂ رسالت سے تھیں۔
کنانہ بن ابی الحقیق کی زوجیت میں تھیں جو غزوۂ خیبر میں قتل ہوگیا تھا اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قیدی بن گئیں۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے حرم کے لیے پسند فرمایا‘ پھر مسلمان ہو گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا اور اسی آزادی کو مہر مقرر کیا۔
انھوں نے ۵۰ ہجری میں وفات پائی اور انھیں بقیع میں دفن کیا گیا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 881   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2054  
´اپنی لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کے ثواب کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2054]
فوائد ومسائل:
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خیبر کے یہودی سردار حی بن اخطب کی صاحبزادی تھیں۔
اورفتح خیبر کے موقع پر مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوگئی تھی۔
جب قیدی عورتیں جمع کی گیئں۔
تو حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریمﷺکی خدمت میں آکر عرض کیا۔
اے اللہ کے نبی ﷺمجھے قیدی عورتوں میں سے ایک لونڈی دے دیجئے۔
آپﷺ نےفرمایا جائو ایک لونڈی لے لو۔
انہوں نے جا کر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو منتخب کرلیا۔
اس پر ایک آدمی نے آپﷺ کے پا س آکر عرض کیا۔
اے اللہ کے نبیﷺ آپ نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کی سیدہ صفیہ کو دحیہ کے حوالے کردیا۔
حالانکہ صرف وہ آپ ﷺکے شایان شان ہے۔
آپ ﷺنے فرمایا دحیہ کو صفیہ سمیت بلائو۔
حضرت وحیہ ان کو ساتھ لئے ہوئے حاضر ہوئے۔
آپ ﷺنے انھیں دیکھ کر حضرت وحیہ سے فرمایا قیدیوں میں سے کوئی دوسری لونڈی لےلو۔
پھر آپ ﷺنے حضرت صفیہ پرالسلام پیش کیا۔
انہوں نے اسلام قبول کرلیا اس کے بعد آپ نے انہیں آزاد کرکے آپﷺنے ان سے شادی کرلی۔
اور ان کی آذادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔
مدینہ واپسی میں صد صہبا پہنچ کر وہ حیض سے پاک ہوگئیں۔
اس کے بعد ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں آپﷺکےلئے آراستہ کیا۔
اور رات کو آپﷺکے پاس بھیج دیا۔
آپ ﷺنے دولہے کی حیثیت سے ان کے ہمراہ صُبح کی۔
اور کھجور اور گھی اور ستو ملا کر ولیمہ کھلایا۔
اور راستے میں تین روز شبہائے عروسی کے طور پر ان کے پاس قیام فرمایا۔
اس موقع پر آپﷺنے ان کے چہرے پر ہرا نشان دیکھا دریافت فرمایا یہ کیا ہے۔
کہنے لگیں۔
یا رسول اللہ ﷺ آپ کے خیبر آنے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ چاند اپنی جگہ سے ٹوٹ کر میری آغوش میں آکر گرا ہے۔
بخدا مجھے آپ ﷺکے معاملے کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔
لیکن میں نے یہ خواب اپنے شوہر سے بیان کیا۔
تو اس نے میرے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا یہ بادشاہ جو مدینہ میں ہے تم اس کی آرزو کررہی ہو (الرحیق المختوم)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2054   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5086  
5086. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےسیدہ صفیہ‬ ؓ ک‬و آزاد کیا اور انکی آزادی ہی کو ان کا حق مہر قرار دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5086]
حدیث حاشیہ:
صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا جو جنگ خیبر میں گرفتار ہوئی تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد فرما کر اپنے ازواج میں داخل فرمالیا تھا۔
حضرت امام ابو یوسف ومحمد اور حنابلہ اور ثوری اور اہلحدیث کا یہی قول ہے کہ لونڈی کی آزادی یہی اس کا مہر ہو سکتی ہے اور حنفیہ و شافعیہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اور کسی کو ایسا کرنا درست نہیں۔
اہلحدیث کی دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔
اس میں صاف یہ ہے کہ آزادی ہی مہر قرار پائی۔
شافعیہ اور حنفیہ کہتے ہیں کہ حضرت انس کو دوسرے مہر کا علم نہیں ہوا تو انہوں نے اپنے علم کی نفی کی نہ اصل مہر کی۔
اہلحدیث کہتے ہیں کہ طبرانی اور ابوالشیخ نے خود حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا میری آزادی ہی میرا مہر قرار پائی۔
دلائل کے لحاظ سے یہی مسلک راجح ہے۔
اس لئے اہلحدیث کا مسلک ہی صحیح ہے۔
فتح الباری میں ہے۔
أخذ بظاھرہ من القدماء سعید ابن المسیب و إبراھیم النخعي وطاؤس و الزھري ومن فقھاء الأمصار الثوري و أبو یوسف و احمد و إسحاق قالوا إذا أعتق أمته علی أن یجعل عتقھا صداقھا صح العقد والعتق والمھر علی ظاھر الحدیث۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5086   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5086  
5086. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےسیدہ صفیہ‬ ؓ ک‬و آزاد کیا اور انکی آزادی ہی کو ان کا حق مہر قرار دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5086]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما جنگ خیبر میں گرفتار ہوئی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا اور ان کی آزادی کو ان کا حق مہرقرار دیا۔
اکثر اہل علم کا موقف ہے کہ ظاہر حدیث کے پیش نظر لونڈی کی آزادی اس کا حق مہر ہو سکتی ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں وضاحت ہے۔
اس کے علاوہ طبرانی کی روایت میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہم کا بیان ہے کہ میری آزادی ہی میرا مہر قرار پائی۔
(المعجم الأوسط للطبراني: 236، رقم: 8502) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے ظاہر کے پیش نظر متقدمین میں سے سعید بن مسیّب، ابراہیم نخعی، طاؤس، زہری، ثوری، ابو یوسف، امام احمد اور اسحاق رحمہم اللہ کا موقف ہے کہ جب کوئی شخص اپنی لونڈی کو اس شرط پر آزاد کرتا ہے کہ اس کی آزادی ہی اس کا حق مہر قرار پائے گا تو عقد نکاح، آزادی اور حق مہر صحیح ہے اور ایسا کرنا جائز ہے، جبکہ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا، کسی دوسرے کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں۔
دلائل کے اعتبار سے پہلا موقف زیادہ مضبوط ہے۔
والله اعلم (فتح الباري: 161/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5086