صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
75. بَابُ إِجَابَةِ الدَّاعِي فِي الْعُرْسِ وَغَيْرِهَا:
باب: ہر ایک دعوت قبول کرنا شادی کی ہو یا کسی اور بات کی۔
حدیث نمبر: 5179
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَجِيبُوا هَذِهِ الدَّعْوَةَ إِذَا دُعِيتُمْ لَهَا"، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَأْتِي الدَّعْوَةَ فِي الْعُرْسِ وَغَيْرِ الْعُرْسِ وَهُوَ صَائِمٌ.
ہم سے علی بن عبداللہ بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حجاج بن محمد اعور نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ابن جریج نے کہا کہ مجھ کو موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ولیمہ کی جب تمہیں دعوت دی جائے تو قبول کرو۔ بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اگر روزے سے ہوتے جب بھی ولیمہ کی دعوت یا کسی دوسری دعوت میں شرکت کرتے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5179  
5179. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تمہیں اس (ولیمے) کی دعوت دی جائے تو اسے قبول کرو۔ راوی نے کہا: سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ اگر روزے سے ہوتے تو بھی شادی اور غیر شادی کی دعوت میں ضرور شرکت کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5179]
حدیث حاشیہ:
اگر نفلی روزہ ہے تو اسے کھول کر ایسی دعوتوں میں شریک ہونا بہتر ہے کیونکہ ان سے محبت باہمی بڑھتی ہے، باہمی میل ملاپ پیدا ہوتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5179   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5179  
5179. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تمہیں اس (ولیمے) کی دعوت دی جائے تو اسے قبول کرو۔ راوی نے کہا: سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ اگر روزے سے ہوتے تو بھی شادی اور غیر شادی کی دعوت میں ضرور شرکت کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5179]
حدیث حاشیہ:
(1)
دعوت ولیمہ میں شرکت کرنی چاہیے، وہاں جا کر کھانا کھانا ضروری نہیں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تمھیں کھانے کی دعوت دی جائے تو اسے قبول کرو، وہاں جاکر اگر چاہے تو کھالے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔
(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3518 (1430) (2)
اگر کسی نے نفلی روزہ رکھا ہے تو دعوت کی خاطر اسے توڑا بھی جا سکتا ہے کیونکہ اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے اور آپس میں میل ملاپ پیدا ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبرانی کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک آدمی نے دعوتِ طعام کا اہتمام کیا تو کسی نے کہا:
میں تو روزے سے ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تمہارے بھائی نے تمھیں دعوت دی ہے اور اس سلسلے میں اس نے تکلف سے کام لیا ہے، تم روزہ چھوڑ دو اگر چاہو تو اس کے بدلے کسی اور دن روزہ رکھ لو۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 152/4، رقم: 3264، طبع مکتبة المعارف)
لیکن اس کی سند کمزور ہے، البتہ یہ متابعت و شواہد میں پیش کی جا سکتی ہے۔
(فتح الباري: 308/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5179