صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
98. بَابُ الصَّلاَةِ إِلَى الرَّاحِلَةِ وَالْبَعِيرِ وَالشَّجَرِ وَالرَّحْلِ:
باب: اونٹنی، اونٹ، درخت اور پالان کو سامنے کر کے نماز پڑھنا۔
حدیث نمبر: 507
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّهُ كَانَ يُعَرِّضُ رَاحِلَتَهُ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا، قُلْتُ: أَفَرَأَيْتَ إِذَا هَبَّتِ الرِّكَابُ، قَالَ: كَانَ يَأْخُذُ هَذَا الرَّحْلَ فَيُعَدِّلُهُ فَيُصَلِّي إِلَى آخِرَتِهِ أَوْ قَالَ مُؤَخَّرِهِ"، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَفْعَلُهُ.
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی بصریٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا عبیداللہ بن عمر سے، وہ نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو سامنے عرض میں کر لیتے اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے، عبیداللہ بن عمر نے نافع سے پوچھا کہ جب سواری اچھلنے کودنے لگتی تو اس وقت آپ کیا کیا کرتے تھے؟ نافع نے کہا کہ آپ اس وقت کجاوے کو اپنے سامنے کر لیتے اور اس کے آخری حصے کی (جس پر سوار ٹیک لگاتا ہے ایک کھڑی سی لکڑی کی) طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:507  
507. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی سواری کو چوڑائی میں بٹھا دیتے پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ (نافع کہتے ہیں:) میں نے عرض کیا: اچھا یہ بتایے کہ اگر سواری کے اونٹ اپنی جگہ سے اٹھ جاتے تو آپ کیا کرتے تھے؟ ابن عمر ؓ نے فرمایا: اس صورت میں آپ پالان کو اپنے سامنے کھڑا کر لیتے اور اس کی پچھلی لکڑی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے۔ اور ابن عمر ؓ کا بھی یہی عمل تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:507]
حدیث حاشیہ:

حیوان کو سترہ بنانے کے متعلق بعض ائمہ کرام سے کراہت منقول ہے کہ سترے کا مقصد نماز کا تحفظ ہے، لیکن حیوان پر کیا بھروسا کہ وہ کب اٹھ کر چل دے۔
لیکن امام بخاری ؒ کے نزدیک سترے کے معاملے میں نمازی کے لیے پورا توسع ہے۔
وہ ہرچیز کو سترہ بنا سکتا ہے۔
وہ چیز از قسم حیوان ہو یا غیر حیوان، انھوں نے عنوان میں چار چیزوں کا ذکر کر کے توسع کا اظہار فرما دیا، لیکن روایت میں سواری اور پالان کا ذکر ہے، درخت اور اونٹ کا ذکر نہیں۔
لیکن اونٹ اور اونٹنی تو ایک ہی جنس کے دو نام ہیں، جب سواری کی اونٹنی کو سترہ بنایا جا سکتا ہے تو اس سے اونٹ کا حکم بھی معلوم ہوگیا۔
رہا درخت کا معاملہ تو وہ اس طرح ثابت ہے کہ جب لکڑی پالان کو سترہ بنانا درست ہے تو اس سے لکڑی کی ہرجنس کا حکم معلوم ہوگیا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے مطابق عنوان میں ان روایات کی طرف اشارہ کر دیا ہو جن میں صراحت کے ساتھ اونٹ اور درخت کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا ذکر ہے، چنانچہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اونٹ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 692)
اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ بدر والی رات دیکھا کہ ہم میں سے ہر شخص سو گیا تھا، مگر رسول اللہ ﷺ ایک درخت کو سترہ بنا کر نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صبح تک دعا میں مشغول رہے۔
(السنن الکبریٰ للنسائي، أبواب السترة، حدیث: 823)

حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ آپ اونٹ کو سترہ بنا کر نماز پڑھنے کو مکروہ خیال کرتے تھے، ہاں! اگر اس پر پالان ہوتا تواس میں کوئی حرج خیال نہ کرتے تھے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس پر پالان ہونے کی صورت میں وہ آرام اورسکون سے بیٹھا رہتا ہے جبکہ اس کے بغیر اس کے مستی میں آ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
فقہاء نے پالان کی پچھلی لکڑی کو کم از کم سترے کی مقدار قراردیا ہے، اس کی اونچائی ایک ذراع یا 2 بٹے 3 ذراع ہوتی ہے، لیکن مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے اونٹ پرجو پالان ہوتا تھا، اس کی پچھلی لکڑی ایک ذراع کے برابر تھی۔
(فتح الباري: 751/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 507